Maktaba Wahhabi

154 - 325
دعا کی فرمائش کی،لہٰذا آپ کا یہ عمل ہمارے لیے درس و تعلیم ہے جس کی اقتداء ہم پر فرض ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آپ کی اس فرمائش سے اتنی خوشی ہوئی کہ بقول ان کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس فرمائش کے مقابلے میں ان کے لیے دنیا و مافیہا سب ہیچ ہے۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ دین کے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول وعمل شریعت و قانون ہے جس کے لیے آپ اور آپ کی امت دونوں ہی پابند ہیں،لہٰذا آپ کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ فرمانا کہ ’’بھائی اپنی دعا میں ہمیں نہ بھولنا۔‘‘ دراصل یہ بتانا ہے کہ آپ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دعا سے اپنے لئے خیر و برکت کی امید تھی اور امت کو یہ نمونہ پیش کرنا مقصود تھا کہ اسی طرح وہ اپنے لئے بھی اپنے مومن بھائیوں سے دعا کی تاکید کریں،تاکہ اہل ایمان کی دعائیں دوسرے مومنوں کے لیے بارگاہ الہٰی میں وسیلہ بنیں،او رمومن آپس میں ایک دوسرے کو اپنی دعاؤں کی برکت سے فیض پہنچا سکیں۔اس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے لیے دعا کی تاکید فرما کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مومن کی دعا کو دوسرے مومن کے لیے وسیلہ ہونے کی مشروعیت کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ ادنیٰ شخص کی دعا اعلیٰ شخص کے لیے وسیلہ ہو سکتی ہے،اور اعلیٰ شخص کی دعا ادنیٰ شخص کے لیے تو بدرجہا بہتر وسیلہ ہو سکتی ہے۔
Flag Counter