Maktaba Wahhabi

211 - 352
عبارت کی تشریح … شرح … مصنف رحمہ اللہ نے یہاں پر دو مسئلوں کا خصوصی طورپر ذکر فرمایا ہے۔ ایک استواء علی العرش اور دوسرا معیۃ اللہ للخلق ،مصنف رحمہ اللہ کا مقصود اس اشکال کو رفع کرنا ہے کہ بعض لوگوں کا وہم وظن ہے کہ ان دونوں صفات میں منافات ہے ، اور بعض کووہم وظن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ صفات مخلوق کی صفات کی طرح ہیں، اور یہ کہ جب اللہ تعالیٰ مخلوق کے ساتھ مختلط ہے تو مخلوق کے اوپر مستوی علی العرش کیسے ہے؟ اوریہ کہ مخالطت کے بغیر مخلوق کے ساتھ قرب ومعیت کیسی؟ شیخ رحمہ اللہ نے مختلف وجوہ سے اس شبہ کے جواب دیئے ہیں: ا لوجہ الاول : قرآن لغتِ عرب پر اتراہے ،اور لغتِ عرب معیت بمعنی مخالطت کو ضروری قرار نہیں دیتی، اس لئے کہ کلمۂ ’’مع‘‘لغت میں مطلقامصاحبت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جس سے اختلاط،امتزاج ،مجاورت اور مماست(چھونا)کا مفہوم قطعی لازم نہیں آتا ،مثلاً: آپ کہتے ہیں:’’ زوجتی معی‘‘ یعنی میری بیوی میرے ساتھ ہے حالانکہ اس لمحہ وہ اور جگہ ہوتی ہے اور آپ دوسری جگہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح آپ کہتے ہیں:’’ مازلنا نسیر وا لقمر معنا‘‘ (جب تک ہم چلتے رہے چاند بھی ہمارے ساتھ رہا) حالانکہ چاند تو آسمان میں ہے،اور چاند مسافر وغیر مسافر دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔جب یہ بات اللہ تعالیٰ کی ایک چھوٹی سی مخلوق چاند کے متعلق کہی جاسکتی ہے تو اللہ تعالیٰ جو کہ ہر چیز کا خالق ہے اور سب سے بڑا ہے کے متعلق کیوں نہیں کہی جاسکتی ہے۔ الوجہ الثانی: دوسری و جہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معیت کا بمعنی اختلاط ہونا ایک ایسا قول ہے جو سلفِ صالحین صحابہ ،تابعین اور تبعِ تابعین جن کے زمانہ کو سب سے بہتر زمانہ قرار دیا
Flag Counter