Maktaba Wahhabi

212 - 352
گیا ہے کے اجماعی قول کے منافی ہے ،جبکہ یہ سلف ِ صالحین تو ا پنے بعد آنیوالوں کیلئے قدوہ (رہنما) کی حیثیت رکھتے ہیں،سلفِ صالحین کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ مستوی علی العرش ،اپنی مخلوق سے بلند اور ان سے جدا ہے اور سلفِ صالحین کا اس پر بھی اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کے اعتبار سے اپنی مخلوق کے ساتھ ہے ۔آیت ’’ وَھُوَ مَعَکُمْ ‘‘ کی یہی تفسیر سلف سے منقول ہے۔ الوجہ الثالث: تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ بات فطرتِ انسانی کے بھی خلاف ہے ،کیوں کہ تمام انسان فطری طور پر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے بلند ہے ،کیونکہ تمام انسان سختیوں اور مصیبتوں میںجب اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو بلندی (اوپر) کی طرف رُخ کرتے ہیں،دائیں بائیں نہیں،کسی نے انہیں اس بات کی تعلیم نہیں دی ہوتی، بلکہ یہ اس فطرت کا تقاضاہوتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا فرمایاہے ۔ ا لوجہ الرا بع:چوتھی وجہ یہ ہے کہ یہ بات کتاب اللہ اور سنت ِ متواترہ کے خلاف ہے ، کیونکہ قرآن وسنتِ متواترہ سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے بلند اپنے عرش پر ہے اور اپنی مخلوق کے ساتھ بھی ہے وہ جہاں کہیں بھی ہوں۔ متواتر اس حدیث کو کہتے ہیں جسے بیان کرنیوالی ابتداء سے انتہاء تک ایسی بڑی جماعت ہو کہ عرف عام میں ان کا جھوٹ پر مجتمع ومتفق ہونا محال ہو۔صفت ِعلوکے اثبات میں بہت سی آیات واحادیث ہیں،مصنف رحمہ اللہ نے ان میں سے فقط ایک آیت ذکر کی ہے۔ مصنف رحمہ اللہ اپنے قول ’’ وھو سبحا نہ فو ق عرشہ رقیب علی خلقہ مھیمن علیھم مطلع علیھم‘‘ میں اللہ تعالیٰ کی صفت علو علی العرش اور معیت للخلق کی مزید تاکید کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کے دوناموں ’’المھیمن،الرقیب‘‘ سے استدلال کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: { اِنَّ اللّٰه کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا } (النساء: ۱) ’’الرقیب‘‘(نگران) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے احوال کا نگران ہے ،اللہ تعالیٰ کا یہ نام مخلوق کے ساتھ اس کے قرب پر دلالت کرتا ہے ۔
Flag Counter