پہنچاتے ۔ صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
’’ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح والے سال خطبہ دیا ۔ تو اہل ِ یمن میں سے ایک آدمی کھڑا ہوگیا ‘ اسے ابو شاہ کہا جاتا تھا، اس نے کہا:
یا رسول اللّٰہ ! اکتبوا لي ۔ فقال : ’’اکتبوا لأبي شاۃ۔‘‘[1]
’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اسے میرے لیے لکھ دیجیے ۔(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: ابو شاہ کے لیے لکھ دو۔‘‘یعنی وہ خطبہ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔
(ج) اس کی صفات:
حدیث کے لکھنے کا اہتمام کرنا واجب ہے۔ کیونکہ یہ حدیث کو نقل کرنے کے وسائل میں سے ایک وسیلہ ہے۔ اس لیے اس کا اہتمام کرنا واجب ہوجاتا ہے ، جیسا کہ اس کو الفاظ کے ذریعہ سے (بول کرپہنچانا واجب ہے)۔اس کی دو صفتیں ہیں :
(۱) واجب (۲) مستحسن ۔
واجب : حدیث کو واضح اور صاف الفاظ میں لکھے تاکہ کوئی شک وشبہ یا مشکل پیدا نہ ہو۔
مستحسن: ذیل میں آنے والے امور کا لحاظ رکھے:
۱: جب اللہ تعالیٰ کا نام آئے تو اس کے ساتھ ’’تعالیٰ‘‘ یا’’ عزو جل ‘‘ یا ’’ سبحانہ ‘‘ اس طرح کے دیگر صریح ثنا ء وتعریف کے کلمات بغیر کسی رمزکے لکھے ۔ اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آئے تو اس کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم یا رحمۃ اللہ علیہم صریحاً لکھے، بغیر کسی رمز کے۔
علامہ عراقی نے ’’شرح الفیہ مصطلح الحدیث‘‘ میں لکھا ہے کہ : ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ و سلام کے لیے لکھنے میں دو حرفوں پر مشتمل رمز اختیار کیا جائے۔[2]
نیز فرماتے ہیں :
|