’’ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا میں اپنے ہاتھ پھیلاتے تو اس وقت تک واپس نہ کرتے جب تک اپنے چہرہ پر نہ پھیر لیتے ۔‘‘[1]
بلوغ المرام میں (حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ) کہا ہے : ’’ ابو داؤد میں اس کے شواہد ہیں ‘ ان کا مجموعہ اس کا تقاضا کرتا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے ۔
اس حدیث کا نام ’’ حسن لغیرہ ‘‘ اس لیے رکھا گیا ہے کہ اگر اس کی روایت کے طرق میں سے ہر طریق کو منفرد طور پر دیکھا جائے ‘ تو یہ حسن کے رتبہ کو نہیں پہنچ پاتی ۔جب اس کے سارے طرق دیکھے تو اس کو تقویت مل گئی ‘ اور یہ حسن کے رتبہ کو پہنچ گئی ۔
ضعیف
ضعیف :’’وہ حدیث جس میں حسن اور صحیح کی شرطیں نہ پائی جائیں ۔‘‘
اس کی مثال حدیث:
’’ احترسوا من الناس بسوء الظن۔‘‘
’’ لوگوں سے بچو‘ بد گمانی سے ۔‘‘
جہاں پر زیادہ ضعیف حدیثوں کا گمان ہے ‘ ان کتب میں سے : ’’ وہ روایات جن میں عقیلي منفرد ہو‘ یا ابن عدی‘ یا خطیب بغدادی ، یا ابن عساکر اپنی تاریخ میں ، او ردیلمی مسند فردوس میں ‘ او رحکیم ترمذی نوادر الأصول میں نقل کریں ؛ یہ صاحب سنن ترمذی کے علاوہ ہیں ۔ او رایسے ہی ابن جارود او رحاکم اپنی تاریخ میں [جن احادیث کا ذکر کریں ]۔
ضعیف کے علاوہ باقی اخبار آحاد کا فائدہ :
اول: ظن : یعنی جس سے یہ روایت نقل کی گئی ہے ‘ اس کی طرف اس کے منسوب ہونے میں صحت /درستگی کا رجحان ۔ اور یہ ظن اپنے سابقہ مراتب کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔
|