من نارٍ ۔)) [1]
’’ جس انسان سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی جسے وہ جانتا ہو‘ پھر اس نے وہ بات چھپائی ‘ اسے قیامت والے دن آگ کی لگام دی جائے گی ۔‘‘
(۲) شاگردوں کی تکالیف پر صبر:ان کے برے معاملات ‘ بدسلوکی اور دیگر تکلیف دہ باتوں پر صبر تاکہ وہ اللہ کے ہاں صابرین کا اجر و ثواب پاسکے ۔ اور انہیں (یعنی شاگردوں کو)بھی دعوت و اصلاح کے ساتھ صبراور لوگوں کی تکالیف برداشت کرنے کا عادی بنائے‘ اور انہیں حکمت کے ساتھ اس طرح ان کی غلطی پر تنبیہ کرے تاکہ اس کی ہیبت ان کے دلوں سے ختم نہ ہو، اور ان کو تعلیم دینے میں اس کی محنت ضائع نہ ہو ۔
(۳) طلبہ کے لیے نمونہ : یہ کہ استاد اپنے طلبہ کے سامنے دین اور اخلاق کیساتھ اپنی شان کے مطابق ایک مثالی شخص بن کر رہے ۔ کیونکہ معلم شاگردوں کے لیے ایک بڑی اہم مثالی شخصیت ہوتا ہے ۔ یہ وہ آئینہ ہے جس میں معلم کے دین اور اخلاق کا عکس ہوتا ہے۔
(۴) سہل طریقہ تدریس : استاد کو چاہیے کہ شاگردوں تک علم پہنچانے کے لیے آسان اور مختصر طریقہ اختیار کرے۔ اور جس چیز اس میں رکاوٹ بن رہی ہو ‘ اس سے بچ کررہے۔ بس عبارت کے بیان اور دلیل کے واضح ہونے کا اہتمام کرے ۔ اور شاگردوں کے دلوں میں محبت کے بیج بوئے ‘ تاکہ وہ ان کی قیادت کرسکے ‘ اور وہ اس کے کلام کو سمجھ سکیں اور اس کی رہنمائی کو قبول کرسکیں ۔
متعلّم کے خاص آداب
(۱) علم کے حصول میں محنت : بیشک علم جسمانی راحت کیساتھ حاصل نہیں ہوتا ۔ سو چاہیے کہ ہر اس راہ پر چلا جائے جس سے علم تک پہنچنا ممکن ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
|