اور بیشتر اوقات علم کا فائدہ دیتی ہے ، جب اس کے ساتھ ایسے قرائن پائے جائیں ‘ یا اصول اس کی شہادت دیں ۔ دوم: اس کی دلالت کے مطابق عمل: اگروہ خبر ہے تو اس کی تصدیق ‘ اور اگر حکم ہے تو اس کی بجا آوری ۔ جب کہ ضعیف حدیث نہ تو ظن کا فائدہ دیتی ہے ‘اور نہ ہی عمل کا ‘ اور نہ ہی اسے بطور دلیل معتبر سمجھنا جائز ہے ۔ اور نہ ہی اس کا ضعف بیان کیے بغیر اس کا ذکر کرنا درست ہے ۔ سوائے ترغیب و ترہیب میں اس کے ذکر کے ۔ علماء کی ایک جماعت نے تین شروط کیساتھ اس کا ذکر کرنے کی سہولت دی ہے ‘ وہ شروط یہ ہیں : ۱: یہ کہ اس کا ضعف شدید نہ ہو ۔ ۲: جس عمل کی ترغیب و ترہیب ذکر کی جارہی ہے ‘ اس کی اصل صحیح حدیث سے ثابت ہو۔ ۳: اس بات کا اعتقاد نہ رکھے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ۔ ترغیب میں اس کے ذکرکا فائدہ : اس بنیاد پر ترغیب میں اس کے ذکرکا فائدہ یہ ہوگا کہ ثواب کے حصول کے لیے نفوس کو اس عمل پر ابھارا جائے جس کی ترغیب دی جارہی ہے ۔ پھر اگر یہ کام ہوگیا تو بہتر ۔ ورنہ عبادت میں اس کا اجتہاد اس کو نقصان نہ دے گا ، اور نہ ہی اس کا اصلی ثواب ضائع ہوگا جو مامور بہ کے ادا کرنے پر ہے ۔ اورترہیب میں اس کے ذکر کا فائدہ یہ ہوگا کہ : نفوس کو اس عمل سے متنفر کیا جائے ‘ جس سے ڈرایا جارہا ہے ‘ اس خوف سے کہ کہیں وہ اس عقاب میں واقع نہ ہو۔ اگر وہ اس سے بچ جائیں اور عقاب واقع نہ ہو تو اسے کوئی نقصان نہ ہوگا ۔ صحیح لذاتہ کی تعریف کی شرح : یہ بات گزر چکی کہ :صحیح لذاتہ وہ حدیث ہے : ’’جسے عادل ‘ تام الضبط راوی متصل سند سے روایت کرے ‘ اور یہ شذوذ اور قدح کرنے والی علت سے سلامت ہو۔‘‘ سو عدالت: دین اور مروت میں استقامت کو کہتے ہیں ۔ |