مقدمہ
اِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ، نَحْمَدُہٗ وَ نَسْتَعِیْنُہٗ وَ نَسْتَغْفِرُہٗ،وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِِنَا وَسَیِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ یَّھْدِِہٖ اللّٰہُ فَلاَ مُضِلَّ لَہٗ، وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلا ھَادِيَ لَہٗ، وَأَشْھَدُ أَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ،وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُولُہٗ صلی اللّٰہ علیہ و علی آلہ و صحبہ من تبعہم بإحسان إلی یوم الدین و سلم تسلیماً۔ أَمَّـا بَعْــــــدُ :
بیشک اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر مبعوث فرمایا، تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب و حکمت نازل کی۔( کتاب سے مراد : قرآن ، اور حکمت سے مراد: سنت ہیں ) ۔تاکہ آپ اسے لوگوں کے لیے بیان کردیں ‘ جو ان کی طرف نازل کیاگیاہے ، تاکہ وہ اس میں غور و فکر کریں ‘ اور ہدایت پالیں ‘اور کامیاب ہوجائیں ۔
سو کتاب و سنت یہ دونوں وہ اصل ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حجت قائم کی ہے۔ اور ان دونوں پر امر و نہی(ایجابی و منفی) میں اعتقادی اور عملی احکام کی بنیاد رکھی جاتی ہے ۔
قرآن سے استدلال کرنے والے کو صرف ایک ہی بات پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کا حکم کیا ہے‘اس کے مسند ہونے کے لیے غور و فکر کی ضرورت نہیں ، اس لیے کہ لفظاً اور معناً تواتر کے ساتھ قطعی طور پر ثابت ہے ۔ارشاد الٰہی ہے :
|