اس کی اسناد ظاہری طور پر صحیح ہیں ۔ لیکن اس میں علت یہ بیان کی گئی ہے کہ اسماعیل بن عیاش کا حجازیوں سے روایت کرنا ضعیف ہے ، یہ حدیث بھی انہی میں سے ہے ۔ اس بنا پر یہ حدیث غیر صحیح ہوگی ‘ کیونکہ اس میں علت ِ قادحہ موجود ہے ۔
اگر علت غیر قادحہ ہو تو یہ حدیث کے صحیح یا حسن ہونے میں مانع نہیں ہوتی ۔
اس کی مثال : ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ‘ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((مَن صامَ رَمَضانَ ثُمَّ أتْبَعَهُ سِتًّا مِن شَوّالٍ، كانَ كَصِيامِ الدَّهْرِ۔))[1]
’’ جس نے رمضان کے روزے رکھے ‘ اور پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے (یہ ) اس کے لیے گویا کہ ایک سال کے روزے تھے ۔‘‘
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اسے سعد بن سعید رحمۃ اللہ علیہ کی سند سے روایت کیا ہے‘ اور اس میں علت یہ بیان کی ہے کہ : امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعیف کہا ہے ۔ لیکن یہ علت غیر ِ قادحہ ہے ۔اس لیے کہ بعض آئمہ رحمۃ اللہ علیہم نے اس کی توثیق کی ہے ۔ اور اس کی متابعات بھی موجود ہیں ۔ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کا اس کو اپنی صحیح میں نقل کرنا ہی ان کے ہاں اس کی صحت کی دلیل ہے ۔ اوریہ کہ یہ علت قابل قبول نہیں ہے۔
ایک حدیث کی سند میں دونوں اوصاف صحت اور حسن کا جمع ہونا:
یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ صحیح حدیث بھی حسن کی قسم ہے ۔اور یہ دو مختلف حدیثیں ہیں ۔ لیکن کبھی ہمارے سامنے کوئی ایسی روایت آتی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ: ’’یہ صحیح حسن ‘‘ہے ۔ اس صورت میں ہم ان دو متغایر صفات کے درمیان جمع کیسے ممکن ہوگی ۔
|