اورجس نے علم کے مطابق عمل کرنا چھوڑ دیا ‘ قریب ہے کہ اس کا یہ علم بھی اللہ تعالیٰ اس سے چھین لیں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَبِمَا نَقْضِہِم مِّیْثَاقَہُمْ لَعنَّاہُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَہُمْ قَاسِیَۃً یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَن مَّوَاضِعِہِ وَنَسُواْ حَظّاً مِّمَّا ذُکِّرُواْ بِہِ﴾ (المائدہ:۱۳) ’’تو اُن کے عہد توڑنے کے سبب ہم نے اُن پر لعنت کی اور اُن کے دلوں کو سخت کر دیا۔ یہ لوگ کلمات (کتاب) کو اپنے مقامات سے بدل دیتے ہیں اور جن باتوں کی ان کو نصیحت کی گئی تھی اُن کا بھی ایک حصہ فراموش کر بیٹھے۔‘‘ (۳) اچھے اخلاق اپنانا : جیسے وقار ‘ کم سخنی ‘ نرمیء گفتگو‘ لوگوں کے ساتھ بھلائی، تکلیف پر صبر، اور ان کے علاوہ وہ اخلاق جن پر شرعاً یا عرف ِ سلیم میں تعریف کی جاتی ہو۔ (۴)… بد خلقی سے گریز : جیسے : جھوٹ ‘ گالم گلوچ ، تکلیف دینا ، تند خوئی ، بول چال اور ہیئت میں مذموم حقارت ‘ اور ان کے علاوہ دیگر وہ اخلاق جنہیں شرعاً یا عرفاً برا سمجھا جاتا ہو۔ خاص معلم کے آداب (۱) نشر علم کا شوق:(حرص): ہر قسم کے وسیلہ سے علم پھیلانے کی کوشش کرے ۔ اور جو اس سے علم کی بات طلب کرے ‘ اسے خندہ پیشانی اور کشادہ دلی سے بتائے ۔اور اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی اس علم کی نعمت اور نورپر رشک کرے ۔ اور ایسی کھیپ تیار کرے جو اس سے علم کو وراثت میں حاصل کریں ۔ اور اسے چاہیے کہ علم چھپانے سے ہر طرح سے ڈرتا رہے ۔ خصوصاً اس حال میں کہ لوگوں کو اس علم کے بیان کی ضرورت ہو ‘ یا کوئی رہنمائی حاصل کرنے والا اس سے پوچھے[تو اسے وہ دینی اور علمی بات بتانا ایک ذمہ داری بن جاتا ہے]۔ حدیث میں ہے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من سُئِلَ عن علْمٍ علِمَهُ، ثُمَّ كتَمَهُ، ألْجِمَ يومَ القيامَةِ بلِجامٍ |