’’ میں سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے :
’’بے شک اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔‘‘
جب اس کی سند سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو حذف کردیا جائے تو اسے مرسل کہا جائے گا۔
جب اس کی سند سے حمیدی کو حذف کردیا جائے تو اسے معلق کہا جائے گا ۔
جب اس کی سند سے سفیان اور یحییٰ بن سعید کو حذف کردیا جائے تو اسے معضل کہا جائے گا ۔
جب اس کی سند سے فقط سفیان یا ان کے ساتھ تیمی کو حذف کردیا جائے تو اسے منقطع کہا جائے گا ۔
اس کا حکم :
منقطع السند کی تمام اقسام مردود ہیں ۔کیونکہ اس میں محذوف راوی کا حال مجہول ہوتا ہے ۔ سوائے ان آنے والی اقسام کے :
۱: مرسل ِ صحابی ۔
۲: مرسل کبار تابعین۔ [1] بہت سارے اہل ِ علم کے ہاں جب اس کو کسی دوسری مرسل روایت سے تقویت ملے یا صحابی کے عمل یا قیاس سے تقویت ملے ‘ تویہ قابل قبول ہے ۔
۳: معلق جب (صحت پر )جزم کے صیغہ سے ایسی کتاب میں ہو جس نے صحت ِ حدیث کا التزام کیا ہے ۔جیساکہ صحیح بخاری۔
۴: جو کسی دوسری سند سے متصل آئے ‘ اور اس میں قبول کی شرطیں پوری ہوں ۔
تدلیس:
(۱)… اس کی تعریف (ب)… اس کی أقسام
(ج)… مدلسین کا گروہ (د)… مدلس کی حدیث کا حکم
|