حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس سے حدیث کا ضعف واجب نہیں ہوتا ۔ بلکہ حدیث سے استدلال محفوظ ہے ۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ، اور وہ ہے :’’جداکرنے سے پہلے بیچنے کی ممانعت۔‘‘ رہ گئے چیز کی جنس یا اس کی قیمت کی مقدار ‘ اس کااس حال میں اس حدیث سے کوئی ایسا تعلق نہیں ہے جس کی وجہ سے اضطراب لازم آتا ہو ۔
ایسے ہی راوی کے نام ‘ یا اس کی کنیت میں اختلاف کا واقع ہونا ، یا اس جیسے کسی امر سے اضطراب لازم نہیں آتا۔ جب کہ یہ ایک چیز پر متفق ہوں ‘ جیساکہ بہت ساری صحیح احادیث میں پایا جاتا ہے۔
متن میں ادراج :
(۱)… اس کی تعریف : (ب)… اس کی جگہ :
(ج)… اس کا حکم کب لگایا جائے گا ؟۔
ا: متن میں ادراج کی تعریف:
’’أن یدخل أحد الرواۃ في الحدیث کلاماً من عندہ بدون بیان‘ إما تفسیراً لکلمۃ أو استنباطاً لحکم أو بیاناً لحکمۃ ‘‘
’’ یہ کہ کوئی ایک راوی اپنی طرف سے بغیر کسی وضاحت کے حدیث میں کلام داخل کردے ‘ (ایسا یا تو) کسی کلمہ کی تفسیر میں ہوگا ‘ یا کسی حکم کا استنباط ہوگا ‘ اور کسی حکمت کے بیان کے لیے ہوگا ۔‘‘
ب: اس کی جگہ :کبھی یہ حدیث کے شروع میں ہوتا ہے اور کبھی درمیان اور کبھی وسط میں ۔
شروع حدیث کی مثال : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ہے :
’’ (أسبغوا الوضوء )’’ ویل للأعقاب من النار۔‘‘
’’(اچھی طرح وضوء کرو)خشک ایڑیوں کے لئے آگ کا عذاب ہے۔‘‘
ان کا کہنا کہ : (أسبغوا الوضوء ) یہحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے کلام سے مدرج ہے ۔
|