اسے صحیح لغیرہ اس لیے کہتے ہیں کہ اگر ان میں سے ہر ایک سند کو انفرادی طور پر دیکھا جائے تو یہ صحت کے رتبہ تک نہیں پہنچتی؛ مگر جب ان کو مجموعی طور پر دیکھتے ہیں تو یہ باہم مل کر قوی ہو جاتی ہیں ؛ اور رتبہ صحت تک پہنچ جاتی ہیں ۔
حسن لذاتہ
حسن لذاتہ :’’ وہ حدیث ہے جسے نقل کرنے والا راوی عادل ، خفیف الضبط ،متصل سند سے روایت کرے ،اور یہ شذوذ اور قدح کرنے والی علت سے خالی ہو۔‘‘
حسن اور صحیح کے درمیان فرق صرف اتناہے کہ صحیح کا راوی تام الضبط ہوتا ہے‘ اور حسن کے راوی کا ضبط کم ہوتا ہے ۔ اس کی مثال : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
((مِفتاحُ الصلاةِ الطُّهورُ وتحريمُها التَّكبيرُ وتحليلُها التَّسليمُ۔))[1]
’’ نماز کی کنجی طہارت ہے ‘ اور تکبیرسے اس کی تحریم ہے ‘ اور تحلیل سلام سے ہوتی ہے ۔‘‘
حدیث ِ حسن کا امکان: ابن صلاح رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : جن حدیث کو ابو داؤد نے منفرد روایت کیا ہے ‘ ان میں سے اکثر میں حسن کا گمان ہے ۔‘‘[2]
حسن لغیرہ :
’’جب ضعیف حدیث متعدد طرق سے ایسے روایت کی جائے کہ بعض طرق دوسرے کی تائید کرتے ہوں ، نہ ہی میں کوئی جھوٹا راوی ہو ‘ او رنہ ہی اس پر جھوٹ کی تمہت ہو، تواس حدیث کو حسن لغیرہ کہا جاتا ہے ۔‘‘
اس کی مثال :حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے‘ آپ فرماتے ہیں :
|