اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا ۔ آگاہ ہوجاؤ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے ’ اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں (قیامت کے دن ) پوچھ گچھ ہوگی۔‘‘ تدوین حدیث : حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اور آپ کے بعد چاروں خلفاء راشدین کے دور میں ایسے مدون نہیں تھی جیسے بعد میں ہوئی ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’’ المدخل ‘‘[1] میں حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے : ’’ بیشک حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سنن لکھنے کا ارادہ کیا ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے اس بارہ میں مشورہ کیا ۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اسے لکھ لیا جائے ۔پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک مہینہ تک اس بارے میں اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرنے لگے۔ پھر ایک دن صبح کے وقت اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں اس بات کا عزم ڈال دیا ۔آپ نے فرمایا : ’’ میں نے ارادہ کیا تھا کہ ’’سنن‘‘ لکھ دو ں ۔ پھر مجھے وہ لوگ یاد آئے جو تم سے پہلے تھے۔ انہوں نے کتابیں لکھیں اور پھر ان پر گر گئے ‘ اور اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیا۔ اللہ کی قسم !میں کبھی بھی کتاب اللہ کو کسی دوسری چیز سے نہیں ملاؤں گا۔‘‘ جب حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی خلافت کا دور آیا ‘ تو انہیں حدیث کے ضائع ہوجانے کا خوف محسوس ہوا، تو انہوں نے مدینہ میں اپنے قاضی ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم رحمۃ اللہ علیہ کو لکھا: ’’دیکھو! جو حدیث النبی صلی اللہ علیہ وسلم ملے اسے لکھ لو ۔ بیشک میں علم کے ختم ہونے اور علماء کے چلے جانے سے ڈرتا ہوں ۔ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کچھ قبول نہیں کرنا ۔اور چاہیے کہ علم تلاش کرو‘ اور اس وقت تک بیٹھو یہاں تک کہ جو نہیں جانتا وہ |