’’ درود و سلام میں سے ایک کو حذف کرنا اور صرف ایک ہی لکھنا بھی مکروہ ہے ۔‘‘ اور جب صحابی کا نام آئے تو رضی اللہ عنہ لکھے ۔ اور کسی ایک صحابی کے لیے کوئی خاص دعا یا ثناء ایسے متعین نہ کرے کہ اسے ہر بار ذکر کرنے میں اپنی علامت بنالے ۔ جیساکہ رافضی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام لیتے وقت کرتے ہیں ، یعنی ان کے نام کے ساتھ ’’ علیہ السلام ‘ ‘ یا پھر ’’ کرم اللہ وجہہ‘‘ کہتے ہیں ۔ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’بیشک یہ تعظیم و تکریم کی قسم میں سے ہے ۔سو شیخان - یعنی حضرت ابو بکر وحضرت عمر - اور امیر المؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہم اس کے زیادہ حقدار ہیں ۔[1] اور اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام پر سلام کے ساتھ صلاۃ بھی زیادہ کردیا جائے تو یہ ممنوع ہے ۔اور خاص کر جب اسے شعار بنالیا جائے تو اس کا ترک کرنا ضروری ہوجاتا ہے ۔ یہ بات علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’جلاء الأفہام ‘‘ میں لکھی ہے۔[2] اور جب تابعی کا ذکر آئے یا جو لوگ ان کے بعد آئے ہیں ‘ اور دعا ء کے مستحق ہیں ۔ ان کے لیے ’’ رحمہ اللہ ‘‘ کے الفاظ سے دعا کرے۔ ۲: نص حدیث کے ساتھ ایسا اشارہ دے جس سے وہ دوسری عبارات سے جدا گانہ حیثیت اختیار کرلے ، مثال کے طور پر : اسے () قوسین میں لکھ دے۔یا مربعین [] کے درمیان لکھے۔یا دو دائروں **‘‘ میں لکھ دے ، تاکہ یہ دوسری عبارت کے ساتھ مل کر مشتبہ نہ ہوجائے۔ ۳: یہ کہ خطا کی اصلاح کے لیے عام استعمال ہونے والا طریقہ اختیار کرے ۔ رہ جانے والے جملہ کو کسی ایک جانب ‘ یا اوپر یا نیچے لکھا جائے ، اور اس کی اصل جگہ کے تعین کے لیے اشارہ کر دے ۔ اور زائد کو شروع کلمہ سے لیکر آخر تک ایسے واضح خط کیساتھ مٹادے تاکہ جو اس کے نیچے ہے ‘ وہ نہ مٹے اور قاری پر مخفی ہوجائے۔جب زائد بہت |