Maktaba Wahhabi

97 - 335
محتاج نہیں ، جس کے علوم کے چشمے ہندوستان بھر کو سیراب کر رہے ہیں ، اس کی نسبت بعض مولویوں کی زبانی سنا اور ان کی تحریریں اخباروں میں پڑھیں کہ اس کی بنا بھی میرے چشم و ابرو کے اشاروں کی ممنون ہے اور میری نوکِ زباں نے اہلِ حدیث حضرات کو یہ نعمت عطا فرما رکھی ہے، لیکن تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ بھی ’’مفت احسان داشتن‘‘ کا مضمون ہے۔ ہم نے موجودہ مہتمم صاحب ۔مدظلہ۔ وغیرہ سے دریافت کیا تو ان کی زبانی معلوم ہوا کہ جماعت اہلِ حدیث کے سچے محسن اور بہی خواہ، جن کی زبان و بیان میں قدرت نے سچی تاثیر رکھی تھی، یعنی حضرت مولانا مولوی عبدالعزیز صاحب مرحوم رحیم آبادی رحمہ اللہ نے ایک ایسے عظیم الشان مدرسے کی خواہش ظاہر کی تھی، ان کے فرمان کا یہ نتیجہ ہے، اس کی رغبت دلانے والے اس کی تحریک کرنے والے خدا غریق رحمت کرے مولانا مرحوم تھے نہ کہ کوئی اور۔ ہمارا جی نہیں چاہتا تھا کہ اس حقیقت کا بھی اظہار کریں ، لیکن اس وجہ سے کہ ہمارے پیر و مرشد حضرت مولانا رحیم آبادی رحمہ اللہ کو جماعت دعائے خیر میں یاد کرے، میں نے یہ تحریر چھپوا دی ہے۔۔۔۔‘‘ (التفات الرحمن) [1] ان تمام نقول و بیانات کو سامنے رکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ مدرسے کی تاسیس میں دیگر اسباب و محرکات کے ساتھ مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کی ترغیب و تحریض کا بھی دخل تھا، البتہ مولانا کی زندگی میں مدرسہ قائم نہ ہو سکا، بلکہ آپ کی وفات کے دو تین سال بعد اس کے قیام کی نوبت آئی۔ جب مدرسے کی تاسیس عمل میں آئی تو اس وقت جماعت کے بڑے علما میں
Flag Counter