Maktaba Wahhabi

86 - 335
وقعت باقی نہ رہی تھی۔ ضرورت تھی کہ دینِ اسلام کی صحیح تعلیم اور اعداے اسلام کے حملوں کو روکنے کے لیے دوسرے فنون معقول اور ادب وغیرہ سے مسلمانوں کو بہ خوبی آگاہ کرایا جائے۔ دہلی ہمیشہ سے علم کا گہوارہ بنی رہی، لیکن اس وقت دہلی کی حالت بھی بہت کمزور ہو رہی تھی۔ طلبا کی رہایش و طعام کا کوئی معقول انتظام نہ تھا، عموماً مسجدوں میں پڑے رہتے تھے، معمولی وظیفہ مل جاتا تھا، جس سے اپنے ہاتھ سے روٹی پکا کر سخت تکالیف برداشت کرکے اپنا پیٹ پال لیا کرتے تھے۔ اہلِ محلہ کے گھروں میں روٹی مقرر ہو جاتی تھی، جسے خود جاکر لاتے۔ ’’اس طرح ان کی خود داری اور حریتِ جذبات کو سخت ٹھیس لگتی تھی۔ ہر وقت کس مپرسی، بے بسی اور بے کسی کی حالت میں رہتے، ساتھ ہی منقول ومعقول کی پڑھائی کا کوئی اعلی انتظام نہ تھا کہ تشنگانِ علم کی سیرابی ہو سکے، انہی حالات سے متاثر ہوکر ان نقائص کو دور کرنے کے لیے اور تعلیمِ اسلام کو عروج پر لانے کے لیے مولانا عبد العزیز صاحب رحیم آبادی کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ علماے اہلِ حدیث یکے بعد دیگرے اٹھتے جا رہے ہیں اور ان کی جگہ لینے والا کوئی نہیں ، تعلیم وتعلم کے باقاعدہ سلسلے ٹوٹ رہے ہیں ، کوئی جامع درس گاہ موجود نہیں ۔ اس لیے کوئی ایسی درس گاہ قائم کی جائے، جس کی وجہ سے گزرنے والوں کی نیابت ہوسکے اور جماعت موحدین قبل از وقت لقمۂ اجل نہ بن جائے، چنانچہ یہ تجویز مولانا نے جناب حاجی شیخ عبدالرحمن مرحوم کے سامنے پیش کی، جس کو انھوں نے بہ سر و چشم قبول کر لیا اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوشاں ہوگئے۔ کوئی بھی ایسا شخص جس کے دل میں اسلامی تڑپ اور
Flag Counter