Maktaba Wahhabi

84 - 335
پیغام اور تحریری بیان ان کی خدمت میں پیش کیا۔ ’’جناب حاجی عبدالرحمن مرحوم صوفی صاحب کی اس گفتگو، تحریک اور مولانا رحیم آبادی کی تائید سے بہت متاثر ہوئے اور وعدہ فرما لیا کہ بہت جلد آپ کی اس دینی خواہش کی تکمیل کے لیے ایک عظیم الشان دینی ادارہ قائم کر لیا جائے گا۔ چنانچہ ۱۹۲۱ء میں حاجی عبدالرحمن مرحوم نے زر کثیر صرف کرکے ایک سال میں دار الحدیث رحمانیہ کی عظیم الشان بلڈنگ قائم کر دی۔ یہ ہے دار الحدیث رحمانیہ دہلی کے قیام کا تاریخی اور حقیقی پسِ منظر۔‘‘ [1] قارئین اگر غور کریں تو واضح ہو جائے گا کہ درحقیقت مولانا فیروز پوری صاحب کے بیان میں اور اس سے پہلے کے دونوں بیانات میں کوئی تضاد یا تعارض نہیں ۔ جس طرح پہلے کی دونوں تحریروں میں مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کو مدرسے کی تاسیس کا محرک گردانا گیا ہے، اسی طرح فیروز پوری صاحب کی تحریر میں بھی یہ صراحت موجود ہے کہ ایک اچھے اہلِ حدیث مدرسے کے قیام کی ضرورت کو لے کر صوفی محمد عبد اللہ رحمہ اللہ مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کی خدمت میں پہنچے تھے، جس پر ’’مولانا نے ڈاکٹر سید محمد فرید کو ریاست دربھنگہ میں دینی مدرسہ قائم کرنے کا حکم دیا۔ لیکن صوفی صاحب کی تمنا ابھی تشنۂ تکمیل تھی، چنانچہ آپ مولانا رحیم آبادی کی تائید سے حاجی عبدالرحمن مرحوم کے پاس دہلی پہنچے۔۔۔ حاجی عبد الرحمن صاحب صوفی صاحب کی اس گفتگو اور تحریک اور مولانا رحیم آبادی کی تائید سے بہت متاثر ہوئے اور وعدہ فرما لیا کہ بہت جلد آپ کی اس دینی خواہش کی تکمیل کے لیے ایک عظیم الشان دینی ادارہ قائم کر لیا جائے گا۔‘‘ یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حاجی صاحب کے وعدہ کرنے اور مدرسے قائم
Flag Counter