Maktaba Wahhabi

79 - 335
’’امیر المجاہدین، ولی کامل حضرت صوفی محمد عبداﷲ (بانی جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن) اس امر کے راوی ہیں اور انھوں نے یہ روایت بارہا متعدد مجالس میں علما، جامعہ کے اساتذہ، طلبا اور اپنے عقیدت مندوں میں بیان فرمائی کہ جنگ عظیم اول، جو ۱۹۱۴ء سے شروع ہو کر ۱۹۱۹ء میں ختم ہوئی، کا زمانہ تھا۔ جنگ عظیم اول اپنے زوروں پر تھی، ایک طرف برطانیہ عظمیٰ اور اس کے یورپین اتحادی تھے، دوسری طرف جرمنی اور خلافتِ عثمانیہ ان سے برسرپیکار تھی۔ یہ وہی جنگ ہے، جس میں خلافتِ عثمانیہ کے ماتحت سترہ بلقانی ریاستیں اور یورپ کے مشرقی ممالک یوگو سلاویہ، چیکو سلاویکیہ، البانیہ، رومانیہ، ہنگری وغیرہ ترکوں سے چھین کر آزاد قرار دیے گئے۔ موجودہ تمام عرب ممالک نجد کے بغیر ترکوں کے ماتحت صوبے تھے، جسے عرب قومیت کے نام پر بیروت کے عرب عیسائی دانشوروں ، لبنان کے عیسائی، عرب صحافیوں اور لارنس آف عریبیہ نے عرب شیخ المشایخ کے روپ میں برطانیہ عظمی کی سازش سے عرب مسلمانوں کو خلافتِ عثمانیہ سے برگشتہ کرکے خود ہتھیا لیا۔ ایسے عالم میں تحریکِ مجاہدین یعنی جمعیت عالیہ مجاہدین چمرقند واسمست نے سرتوڑ کوشش کی کہ کسی طرح مسلمانوں کا یہ عالمی مرکز خلافتِ عثمانیہ شکست و ریخت سے بچ سکے، نیز ہندوستان کو کسی طریقے سے فرنگی سامراج کی ڈیڑھ صد سالہ غلامی سے نجات مل سکے، چنانچہ افغانستان میں ایک عارضی آزاد ہند حکومت قائم کی گئی، جس میں اہلِ حدیث کے جلیل القدر فرزندان گرامی مولانا محمد بشیر لاہوری، مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی اور مولانا محمد علی قصوری ایم اے کنٹب پیش پیش تھے۔۔۔۔
Flag Counter