Maktaba Wahhabi

77 - 335
’’جب میں نے دار الحدیث رحمانیہ دہلی اور اس کے نامور فضلا کے بارے میں کچھ مواد فراہم کرنے کی کوشش کی تو مجھے سخت دشواری ہوئی۔ اس سلسلے میں مَیں نے محدثِ کبیر حضرۃ الشیخ مولانا عبید اﷲ صاحب رحمانی حفظہ اللہ سے اپنے ارادے کا اظہار کیا تو انھوں نے بڑی شفقت اور خندہ پیشانی سے میری راہنمائی فرمائی اور استفادے کے لیے رسالہ محدث دہلی کی پرانی فائلیں بھی فراہم کر دیں ، جس کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوئی کہ ماضی قریب میں جماعت کے درد مندوں کو اس بات کی سخت تشویش تھی کہ اکابر علماے اہلِ حدیث ایک ایک کرکے اٹھتے جارہے ہیں ، ان کی جگہ لینے والا کوئی نہیں ہے۔ تعلیم وتعلم کے سلسلے ٹوٹ رہے ہیں اور ملک کے طول و عرض میں کوئی ایسی مثالی و معیاری سلفی درس گاہ نہیں ، جہاں باقاعدہ تعلیم و تربیت کا نظم ہو اور آنے والی نسلوں کو اپنے اسلاف کی نیابت اور عامۃ المسلمین کی قیادت کے لیے تیار کیا جا سکے۔ لہٰذا حافظ مولانا عبدالعزیز صاحب رحیم آبادی رحمہ اللہ نے دہلی کے رئیسِ کبیر جناب شیخ عبد الرحمن کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ شہر دہلی میں ایک ایسی مرکزی درس گاہ کا قیام عمل میں لایا جائے، جو اس خلا کو پُر کر سکے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس تجویز کے محرک مولانا ابراہیم صاحب سیالکوٹی تھے۔ اولیت جس کو بھی حاصل ہو، یہ حقیقت ہے کہ اول روز ہی سے یہ دونوں حضرات اس تحریک کے حامی، مؤید اور فعال رکن رہے اور اپنے تعاون و اشتراک سے اس تحریک کو تقویت پہنچاتے رہے۔‘‘[1] جیسا کہ اعظمی صاحب نے صراحت کی ہے، یہ معلومات انھوں نے دار الحدیث
Flag Counter