Maktaba Wahhabi

34 - 335
مخلص، علم دوست، فیاض اور اصول پسند مہتمم کی نگرانی اور سرپرستی حاصل تھی تو دوسری طرف مولانا نذیر احمد رحمانی، مولانا عبیداللہ رحمانی، مولانا احمد اللہ قرشی جیسے عالم باعمل، ذہین، محنتی، متقی معلم ومربی کی خدمات بھی حاصل تھیں ۔ رہ گئے طلبہ تو بڑی حد تک ان کا دار و مدار مدرسے کی انتظامیہ اور اساتذہ کی سنجیدگی، مقصدیت اور اصول پسندی پر ہوا کرتا ہے۔ عموماً اپنے اوپر کے ان دونوں قسم کے ذمے داروں کے رجحانات اور ترجیحات کو بھانپ کر وہ اپنا رخ طے کرتے ہیں ۔ اگر وہ اپنے ان مربیوں اور منتظموں کو بے عمل، بدانتظام اور بے سمت دیکھتے ہیں تو وقت گزاری اور بے راہ روی کے شیطانی راستے پر چلنے سے بالکل دریغ نہیں کرتے۔ الا ماشاء اللہ۔ لیکن اگر انھیں ادارے کے نظام وقانون کی ہیبت اور سنجیدگی کا علم ہو جائے اور اساتذہ وانتظامیہ کے اخلاص وعمل کے نمونے کے ساتھ ان کی اصول پسندی، سخت گیری اور مداہنت سے گریز کے بارے میں معلوم ہوجائے تو توفیق کے مطابق یا تو اسی شیشے میں وہ خود کو اتار لیتے ہیں یا راستہ بدل دیتے ہیں ۔ دارالحدیث رحمانیہ کی تاریخ کے ان گوشوں کے جمع وترتیب کا مقصد محض تاریخ گردانی، یا عظمت رفتہ پر نوحہ خوانی یا پدرم سلطان بود کی لن ترانی نہیں ہے، بلکہ اس تابناک ماضی میں روشن مستقبل کی تلاش اور عبر ومواعظ کا جمع و استنتاج اصل ہدف ہے۔ آج ہمارے پاس نہ مدارس وجامعات کی کمی ہے نہ ان میں پڑھنے پڑھانے والوں کی اور نہ اربابِ انتظام کے قحط کا رونا ہے۔ لیکن پھر بھی ہماری یہ تعلیم گاہیں ، الا ما شاء اللہ، بے روح، بے ثمر اور بے سمت نظر آتی ہیں ۔ دین کے ان قلعوں اور رجال سازی کی فیکٹریوں سے سالانہ سیکڑوں نہیں ، بلکہ ہزاروں کی تعداد میں بن سنور کر افراد باہر آتے ہیں ، لیکن ان میں علم وعمل کے شیدائی اور دین کے خادم بے حد کم اور خام بلکہ ردی مال ہی زیادہ ہوتا ہے، جو قوم و ملت اور معاشرے کی امیدوں پر پانی
Flag Counter