Maktaba Wahhabi

320 - 335
کے صاحب زادے حافظ محمد یحییٰ صاحب اور ان کی اولاد و احفاد اس محلے میں جماعت اور اہلِ جماعت کی نمایندگی کر رہے ہیں ۔ یہ مسجد بھی کشادہ اور صاف ستھری نظر آئی، اس مسجد میں غالباً شام کے وقت ناظرہ قرآن وغیرہ پڑھانے کا نظم ہے۔ اس کے بعد ہم لوگ باڑہ ہندو راؤ کی طرف بڑھ رہے تھے، جو کسی قدر فاصلے پر تھا، جسے ہمارے میزبان نے کوچہ شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے پتلی پتلی گلیوں کے ذریعے سے بہت جلد طے کر لیا۔ واضح رہے کہ باڑہ ہندو راؤ ہی وہ محلہ ہے، جہاں دار الحدیث رحمانیہ قائم تھا۔ محلے کے اس ہندوانہ نام کے باوجود مجھے اس نام سے بڑی انسیت تھی۔ دار الحدیث رحمانیہ سے ادنی نسبت رکھنے والی ہر چیز چاہے، اس کا تعلق نباتات و جمادات ہی سے کیوں نہ ہو، میرے لیے کشش رکھتی ہے اور اس کے بارے میں سننا پڑھنا اور جاننا مجھے قلبی سکون پہنچاتا ہے۔ طویل عرصے تک مدرسے اور اس کی تاریخ سے مربوط رہنے کی وجہ سے اس کی طرف منسوب ہر شے میرے لیے کشش رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب محلے کے سائن بورڈوں پر باڑہ ہندو راؤ لکھا ہوا نظر آنے لگا تو میرے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی اور وصالِ محبوب کے تصور سے میری شادمانی میں اضافہ ہونے لگا۔ کوچۂ محبوب تک پہنچنے سے قبل ہمیں ایک اور اہلِ حدیث مسجد کا دیدار کرایا گیا، جو چھوٹی مسجد کے نام سے متعارف تھی اور اسی باڑہ ہندو راؤ میں قائم تھی۔ کچھ اور آگے بڑھنے پر لال رنگ کی ایک بے حد قدیم اور بوسیدہ عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عبد الحق صاحب نے بتایا کہ یہیں اخبار اہلِ حدیث کا آفس تھا۔ میری اپنی دانست کے مطابق اس جگہ مولانا محمد صاحب جوناگڈھی کے ’’اخبار محمدی‘‘ کا آفس تھا۔ اس سے چند قدم کے فاصلے پر مدرسے کی عمارت تھی، چنانچہ مولانا عبدالغفار حسن رحمانی دار الحدیث رحمانیہ کے زائرین اور معاینہ کاروں کے تذکرے میں مولانا محمد صاحب جونا گڈھی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
Flag Counter