Maktaba Wahhabi

30 - 335
روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ کے کالم نگار تھے، کسی غلط اطلاع کی بنا پر جامعہ سلفیہ کے خلاف کالم لکھا تو مجھ سے ٹیلی فون پر چودھری یاسین ظفر نے رابطہ کیا۔ میں اس وقت بہاول نگر میں تھا۔ انھوں نے کہا کہ حمید اختر صاحب کی اطلاع صحیح نہیں ہے۔ وہ تمھارے دوست ہیں ۔تم ان سے بات کرو، میں نے عرض کیا: میں ابھی ان کو ٹیلی فون کرتا ہوں ، آپ انھیں صحیح واقعات سے مطلع کیجیے۔ چنانچہ انھیں اصل صورت حال بتائی گئی تو غلط فہمی رفع ہوگئی اور حمید اختر مرحوم نے اس کا تذکرہ اپنے کالم میں خاصی تفصیل سے کیااور مجھے بہاول نگر ٹیلی فون کرکے بتایا کہ میں نے تمھارے کہنے اور یاسین ظفر صاحب کے صحیح واقعات فراہم کرنے کی بنا پر کالم لکھ دیا ہے۔ کتاب ’’مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ، دہلی‘‘ کے ضمن میں جامعہ سلفیہ فیصل آباد اور اس فقیر کی دو کتابوں کا ذکر اس لیے زیرِ قلم آگیا کہ اس خاک نشین نے بھی اس موضوع پر کچھ خدمات سر انجام دی ہیں اور اﷲ کے فضل سے دے رہا ہے۔ ممکن ہے میری خدمات کا دائرہ ہندوستانی حضرات کی خدمات کے دائرے سے کم ہو، تاہم خدمات تو ہیں اوریہ اللہ کی نعمت بھی ہے۔ اسی بنا پر میں نے اس کے اظہار کی کوشش کی ہے۔﴿وَاَمَّا بِنِعْمَتِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ بہر کیف مدرسہ ’’دار الحدیث رحمانیہ، دہلی‘‘ کے لائق مصنف مولانا اسعد اعظمی اور فضیلۃ الشیخ فلاح خالد المطیری (مدیر لجنۃ القارۃ الہندیۃ) اور مولانا عارف جاوید محمدی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے یہ بہت بڑا تحفہ ہمیں عنایت فرمایا ہے۔ یہاں میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مدرسہ رحمانیہ دہلی کے آخری مہتمم شیخ عبدالوہاب صاحب تقسیم ملک کے زمانے میں دہلی کی سکونت ترک کرکے کراچی آگئے تھے اور اپنے کاروبار کے ساتھ ہی انھوں نے یہاں مدرسہ رحمانیہ کے نام سے مدرسہ جاری کرلیا تھا، لیکن یہ پتا نہیں چلا کہ انھوں نے یہ مدرسہ کس مہینے اور کس سن میں
Flag Counter