Maktaba Wahhabi

266 - 335
تعلق ما سبق سے ہو.......‘‘[1] ایک جگہ فرماتے ہیں : ’’میری تدریس کا یہ قاعدہ تھا کہ شرح عقائد کا مطالعہ کرتا اور سات دن تک آگے آنے والے اسباق پر نظر ڈال لیتا اور شرح عقائد کی شرح خیالی کو پڑھتا، پھر ملا افغانی کی شرح رمضان آفندی پڑھتا، اس طرح بسط وتفصیل سے میں سبق پڑھاتا کہ سارے طلبا مطمئن ہو کر اٹھتے........‘‘[2] مولانا کا یہ بیان بھی سابقہ صفحات میں گزر چکاہے: ’’میرے پڑھانے کے زمانے میں مولانا عبد السلام صاحب درانی کا انتقال ہوچکا تھا، ان کی جگہ پر سو روپے ماہوار کئی ولایتی مولانا یکے بعد دیگرے آئے۔ ایک ولایتی مولانا آئے، طلبا نے ان کی شکایت کی، وہ چلے گئے۔ دوسرے آئے طلبا نے ان کی بھی شکایت کی، حتی کہ تیسری جماعت کے بچوں نے بھی ان کی شکایت کی کہ کتاب سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ اس لیے حضرت میاں صاحب ناظم جامعہ رحمانیہ کو یہ خیال ہوا کہ تیسری جماعت تک کے طلبا بڑے بڑے مولانا کی شکایت کرتے ہیں تو عبدالرؤف کیسے پانچویں جماعت کے طلبا کو پڑھا سکتا ہے؟ تو انھوں نے بطور خود پنجابی طلبا کو بلایا اور کہا کہ عبد الرؤف کے یہاں کتاب سمجھ میں آتی ہے؟ تو لڑکوں نے کہا: ہاں آتی ہے، پھر بنگالی اور مدراسی طلبا کو بلایا اور پوچھا کہ عبد الرؤف کے یہاں کتاب سمجھ میں آتی ہے؟ لڑکوں نے جواب دیا کہ خوب اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے، مولانا عبد الجلیل نے کہا کہ
Flag Counter