Maktaba Wahhabi

202 - 335
حوالے کر دو، ورنہ مار مار کر یہیں ختم کر دیں گے اور پھر ایک کہار نے اچانک لاٹھی اٹھا کر مارنا چاہا، لیکن خلیفہ عبد القادر نے پھرتی سے اس کی کلائی کی ایک رگ کو اس زور سے دبا دیا کہ لاٹھی اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ خلیفہ صاحب نے لاٹھی اُٹھا کر اس کے سر پر ماری کہ وہ بے ہوش ہو کر گر گیا۔ دوسرا کہار اپنے ساتھی کا یہ حشر دیکھ کر بھاگ نکلا اور خلیفہ اپنی بیوی کو پیدل پھاٹک حبش خاں تک چلا لائے۔‘‘[1] مولانا عبد الغفار حسن رحمانی ایک اور کھیل کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’کھیلوں میں شیخ (مہتمم) صاحب کو کبڈی بہت پسند تھی۔ میں بھی شوق سے کھیلتا تھا۔ شیخ صاحب چارپائی پر بیٹھے رہتے۔ خوب پالا مارنے والے کو شاباشی دیتے بلکہ انعام بھی۔ سرخ رومال ساتھ ہوتا، جس میں پیسے بندھے ہوتے۔ ایک دفعہ میرے ایک ساتھی حاکم علی کبڈی کبڈی کہتے میری طرف آئے، میں نے ان کی ٹانگ پکڑی اور پھر میرے ساتھیوں نے انھیں زیر کر لیا۔ ہمارے ہاں کبڈی پنجاب سے مختلف ہے، جہاں ایک آدمی کو صرف ایک ہی پکڑ سکتا ہے۔ شیخ صاحب بہت محظوظ ہوئے اور مجھے پانچ روپے انعام میں د یے۔ ایک مرتبہ حریف میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور میرے ساتھی میری مدد کو نہ پہنچ سکے تو شیخ صاحب نے انھیں ڈانٹا کہ اپنے ساتھی کی مدد کو کیوں نہ آئے؟‘‘[2] مولانا عبدالرؤف رحمانی ورزش سے متعلق یہ بھی لکھتے ہیں : ’’ لڑکوں کی سیر وتفریح اور ورزشی کھیل کے بعد بادام کا شربت برف آلود پیش کیا جاتا تھا۔ طبعاً کھیل کی مجلسوں میں میں شریک نہیں ہوتا تھا، لیکن
Flag Counter