Maktaba Wahhabi

141 - 335
بات کر لیتا تو حدیث پڑھنے کی اس کی باری جاتی رہتی۔[1] ’’انجمن کی ایک لائبریری بھی تھی، سیکرٹریِ انجمن ہفتہ وار اجلاس کا لائحہ عمل اس طرح تیار کرتا تھا کہ ہر مقرر کے عنوان تقریر کے ساتھ اس کے مصدر (کتاب یا رسالہ) کی نشان دہی بھی ہوتی تھی۔ ہر ہفتہ وار اجلاس میں اول اور دوم پوزیشن والے کو دو اور ایک روپیہ انعام مقرر تھا۔ ’’کبھی بعض مناسبات سے انجمن کا خصوصی اجلاس بھی ہوتا تھا، مثلاً عیدالاضحی اور عاشورائ، وغیرہ۔ سالانہ اختتامی انجمن امتحان سالانہ سے پہلے ہونے کے بجائے نتائجِ امتحان سنائے جانے کے بعد ممتحن کی زیرصدارت ہوا کرتی تھی اور وہی پوزیشن حاصل کرنے والے مقرر کا فیصلہ کرتے تھے۔‘‘[2] تقریری فن میں طلبا کی تمرین و تربیت کے لیے مدرسین کے علاوہ بعض دوسرے نامور علما و خطبا کی بھی خدمات حاصل کی جاتی تھیں ۔ ’’شیخ عطاء الرحمن نے مولانا محمد صاحب جوناگڑھی رحمہ اللہ سے (جن کا مکان اس وقت دہلی میں رحمانیہ کے قریب ہی تھا) درخواست کی کہ وہ طلباے رحمانیہ کو خطابت کا سلیقہ سکھانے کے لیے کچھ وقت دیا کریں ، چنانچہ وہ جمعرات کو ایک گھنٹے کے لیے مدرسہ رحمانیہ کی مسجد میں تشریف لاتے اور اسلوبِ خطابت سکھانے کے لیے اہم عنوانات پر تقریر فرماتے۔[3] جیسا کہ اوپر مذکور ہوا انجمن کا سالانہ اجلاس مدرسے کے سالانہ اجلاس کے ساتھ ہوتا تھا، جس میں طلبا کی دستار بندی ہوتی اور اسناد تقسیم کی جاتیں ، اس موقع پر طلبا کے مابین اردو عربی میں مسابقاتی تقریریں ہوتیں اور انھیں انعام سے نوازا جاتا، اس موقع پر دہلی اور قرب و جوار کے بڑے بڑے علما اور عمائدین مدعو ہوا کرتے تھے، جن میں ڈاکٹر ذاکر حسین (سابق صدر جمہوریہ ہند) خواجہ عبد الحی فاروقی (جامعہ ملیہ
Flag Counter