Maktaba Wahhabi

136 - 335
محاسن و نقائص دونوں سامنے آئیں ، نیز بعض غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہوسکے۔ سب سے پہلے مدرسہ رحمانیہ ہی کے فاضل و مدرس مولانا عبدالغفار حسن رحمانی کا اس نصاب پر ایک اور تبصرہ نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، جو اس کی بعض خامیوں کے بیان کو بھی متضمن ہے۔ ’’نصابِ تعلیم کی خصوصیات‘‘ کے عنوان سے مدرسے کے نصاب پرگفتگو فرماتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں : ’’مدرسہ رحمانیہ میں ایک طرف حدیث کا خصوصی اہتمام تھا تو دوسری طرف معقولات کو بھی مناسب جگہ دی گئی تھی۔ ترجمتین سے آغاز ہوتا اور پانچویں سال میں جلالین اور بیضاوی (سورہ بقرہ) کا درس ہو جاتا۔ پہلے چار سال میں سارے قرآن کا ترجمہ مع مختصر تفسیر کے نظر نواز ہو جاتا، لیکن سارے قرآن کی مفصل تفسیر کا نہ ہونا کھٹکتا تھا۔ عربی ادب میں حماسہ، متنبی اور سبعہ معلقات پر زور رہا۔ میرے خیال میں مقاماتِ حریری نہ صرف عربی ذوق کو خراب کرتی ہے، بلکہ بھیک مانگنے کی بھی ستایش کرتی ہے۔ اسی طرح ’’نفحۃ الیمن‘‘ میں ایسے واقعات بیان کیے گئے ہیں ، جو اخلاقیات کے منافی ہیں ۔ تاریخِ اسلام بہت مختصر، جغرافیہ سرے سے ندارد۔ اخلاقی تربیت کا خاص خیال رکھا جاتا۔۔۔۔‘‘[1] مولانا موصوف کے اس تبصرے میں بڑا اجمال اور غموض ہے، بالخصوص ابتدائی سطروں میں ۔ چنانچہ آپ کا یہ فرمانا کہ ’’پانچویں سال میں جلالین اور بیضاوی کا درس ہوجاتا‘‘ امرِ واقعہ کے خلاف ہے، کیوں کہ جو نصاب ہمارے سامنے ہے، اس میں تفسیر جلالین جماعتِ خامسہ میں ہے اور تفسیر بیضاوی جماعتِ سابعہ میں ہے۔ اسی طرح آپ کا یہ بیان کہ ’’پہلے چارسال میں سارے قرآن کا ترجمہ مع
Flag Counter