اس مضمون کی دوسری حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں: «لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوْقٍ فی معصیة الخَالِقِ» (شرح السنة) (خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں۔) مثلاً اگر خاوند بیوی کو نماز سے یا فریضۂ حج ادا کرنے سے یا پردہ کرنے سے روکے تو بیوی پر خاوند کی اطاعت واجب نہیں۔ اسی طرح اگر حاکم رعایا کو یا سپہ سالار فوج کو یا آقا غلام کو کسی کام کے کرنے کو کہے جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہورہی ہو تو اس صورت میں اطاعت جائز نہ ہوگی۔ میدان جنگ میں بھی یہ اصول برقرار رہتا ہے۔ بالفاظ دیگر اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بنیادی حقوق میدانِ جنگ میں بھی برقرار رہتے ہیں۔ آج کل اکثر حکومتیں ہنگامی حالات کا سہارا لے کر عوام الناس کے بنیادی حقوق کو تا اطلاع ثانی معطل کردیتی ہیں۔ یہ بات از روئے اسلام جائز نہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: ((بَعَثَ النبی صلی اللّٰه علیه وَسَلَّمَ سَرِیَّةً فَاسْتَعْمَلَ رَجُلًا مِنَ الْاَنْصَارِ وَاَمَرَهُمْ اَن یطیعُوْهُ. فَغَضِبَ وَقَالَ : اَلَیْسَ اَمَرَکُمْ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰه عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اَنْ یّطِیْعُوْنِیْ ؟ قَالُوْا بَلٰی ، قَالَ فَاَجْمِعُوْا حَطْبًا فَجَمَعُوْا فَقَالَ :اُوْقِدُوْا نَارًا فَاَوَقَدُوْ۔ فَقَالَ ادْخُلُوْهَا فَهَمُّوْا وَجَعَلَ بَعْضُهُمْ یُمْسِكُ بَعْضًا وَیَقُوْلُوْنَ فَرَرْنَا اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّارِ فَمَا زَالُوْا حَتّٰی خَمِدَتِ النَّارُ فَسَکَنَ غَضَبُهُ فبلغ النَّبیِّ صَلَّی اللّٰه علیه وَسَلَّمَ فَقَالَ :"لَوْ دَخَلُوْهَا مَا خَرَجُوْا مِنْهَا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ الطَّاعَةُ فِی الْمَعْرُوْفِ»[1] (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستہ بھیجا اور ایک انصاری(عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ سہمی) کو امیر لشکر بنایا۔ اور لوگوں کو حکم دیا کہ امیر کی اطاعت کریں۔ یہ امیر کسی بات پر مشتعل ہوگیا اور ساتھیوں سے کہنے لگا۔ ’’کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیاتھا؟‘‘۔ لوگ کہنے لگے کیوں نہیں‘‘۔ امیر نے کہا۔ ’’اچھا لکڑیاں جمع کرو‘‘۔ انہوں نے اکٹھی کیں تو کہنے لگا: آگ روشن کرو‘‘۔ انہوں نے آگ بھڑکادی تو کہنے لگا۔ ’’اب اس میں داخل ہوجا ؤ ‘‘۔ لوگوں نے قصد کیا تو ایک دوسرے سے کہنے لگے’’آگ (عذاب قیامت)سے بچنے کے لیے ہی تو ہم حضور |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |