Maktaba Wahhabi

139 - 268
جنگ اُحد کے موقعہ پر منافقین نے اسلامی فوج کو سخت نقصان پہنچایا ایک ہزار کی جمعیت مقابلہ کونکلی۔ تو عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر واپس چلا آیا اور کہنے لگا چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا مشورہ (مدینہ کے اندر رہ کر لڑنے کا) قبول نہیں کیا۔ لہذا میں اس جنگ میں شامل نہیں ہوسکتا۔ اس واقعہ سے ایک تو اسلامی فوج میں بے دلی پھیلی دوسرے باقی مسلمان فوج دو طرح کے نظریات میں بٹ گئی۔ ایک گروہ کا خیال تھا کہ اب ہمیں پہلے ان منافقوں سے نبٹ لینا اور ان سے جنگ کرنا چاہیے۔ اور دوسرا گروہ اور اکثر صحابہ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ کفار کے ساتھ لڑائی کی طرف توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔ کیونکہ اگر مسلمان اس وقت منافقین سے اُلجھ جاتے تو یہ داخلی انتشار ان کی شکست فاش کا موجب بن سکتا تھا۔ قرآن حکیم نے اس کا نقشہ یوں پیش فرمایا ہے:۔ ﴿فَمَا لَکُمْ فِیْ الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَاللّٰهُ اَرْکَسَهُمْ بِمَا کَسَبُوْا﴾ (۴/۸۷) (مسلمانو! تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ کہ منافقین کے بارے میں تم دو گروہ ہوگئے ہو حالانکہ اللہ نے ان بدکاریوں کی سزا میں ان کو (کفر کی طرف پھیر) اُلٹ دیا ہے۔) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اِنَّهَا طَیْبَةٌ تُنْفِیْ الذُّنُوْبَ کَمَا تُنْفِی النَّارُ خَبَثَ الْفِضَّةِ» (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوة احد) (مدینہ کا نام طیبہ (پاکیزہ) ہے وہ گنہگاروں کو اس طرح نکال پھینک دیتا ہے جیسے بھٹی چاندی کا میل نکال دیتی ہے۔) چونکہ اس موقعہ پر منافقین کی خبر لینا شدید خطرہ شکست کا باعث بن سکتا تھا۔ لہٰذا اس موقعہ پر بھی منافقین مسلمانوں کی سختی سے بچ گئے۔ منافقین کا طبقہ دراصل اقتدار کی پیداوار ہوتا ہے۔ جنگ بدر سے پیشتر جبکہ مسلمانوں کے پاس اقتدار نہ تھا یہ طبقہ بھی وجود میں نہیں آیا تھا منافقین کا نفاق یہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے حقوق تو سارے وصول کرلیتا ہے لیکن فرائض سے حتی الوسیع گریز کرتا ہے۔ بالفاظ دیگر منافق کا اصول مفاد پرستی ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنا مفاد کفار کی طرف دیکھے تو درپردہ اس کے ساتھ روابط قائم کرلیتا ہے۔ جنگ میں یہ لوگ صرف اس وقت شریک ہوتے تھے جب مال غنیمت کا یقینی مفاد ان کے سامنے ہوتا تھا۔ غزوۂ حدیبیہ میں کسی منافق نے شرکت نہیں کی۔ اس لیے کہ یہ لوگ عمرہ کی نیت
Flag Counter