Maktaba Wahhabi

79 - 186
طرح کہ کوئی آدمی شراب کا نام کوئی دوسرا رکھ لیتا ہے یا جو ئے کو کوئی دوسرا نام دے دیتا ہے تو اس کا یہ کام جا ئز نہ ہوگا۔ حالانکہ جس کام کے کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے(یعنی زنا)تو اس کام کو ہم نکاح شرعی کا نام نہیں دے سکتے۔ اسی طرح نماز وہی ہو گی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ہوگی۔ اور جو اس طرح نماز نہیں پڑھے گا تو اس کی نماز جائز نہیں ہو گی اور نہ یہ نماز اس کے لیے فائدہ مند ہو گی۔ کیوں کہ ایسی نماز کو اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرے گا۔ اہل وسوسہ نے دین میں غلو کرنے کا نام احتیاط رکھ دیا ہے ۔ حالانکہ احتیاط تو وہ ہے جو اپنے کرنے والے کو فائدہ دے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی ثواب کا حقدار ٹھہرائے۔ تو ثابت ہوا کہ احتیاط وہی قابل قبول ہو گی جو سنت کے موافق ہو گی اور جو سنت کے مخالف ہو گی اسے ہم احتیاط کا نام نہیں دے سکتے۔ رہا ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:’’دَعْ مَا یُرِیْبُکَ اِلٰی مَا لَا یُرِیْبُکَ‘‘اور ’’اَلْاِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ‘‘ سے استدلال پکڑنا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ احادیث تو ان کے وسوسے کو باطل کرنے کی سب سے قوی دلیلیں ہیں۔ کیوں کہ دو متعارض دلائل کا آجانا یا کسی کو راجح قرار نہ دے پانا ہی وہ عوامل ہیں کہ جن کی وجہ سے حق کے ساتھ باطل اور حلال کے ساتھ حرام مشابہہ ہو جا تے ہیں اور اسی کانام مشتبہات ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے مشابہ کو چھوڑ کر اور غیرواضح کو چھوڑ کر واضح کو قبول کرنے کی طرف رہنمائی کی ہے۔ تو اب اہل وسواس شبے والی چیز کو جو سنت کے خلاف ہو ، قبول کرنے کی ترجیح دیں گے یا اس چیز کو جو واضح اور سنت کے مطابق ہے؟ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: احتیاط حسن اور اچھی چیز ہے لیکن اس وقت تک جب تک سنت کے مخالف نہ لے جانے والی ہو۔ اور جب یہ سنت کے مخالف لے جانے لگے تو ایسی احتیاط کو چھوڑ دینے میں ہی احتیاط ہے۔ اہل وسواس کی تیسری دلیل کہ کمی یا زیادتی سے کسی معاملے میں سختی کرنا بہتر ہے تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ کمی کرنا یا زیادتی کرنا دونوں صورتیں ہی ناقابل قبول ہیں۔ بہترین راستہ تو میانہ روی کا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
Flag Counter