Maktaba Wahhabi

29 - 186
ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہی زندگی کی راحت و خوشی پر تمام وسائل سے زیادہ مددگار ثابت ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے : {وَمَنْ یَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوْ حُسْبُہٗ} (الطلاق: ۳) ’’جو اللہ پر بھروسہ کرے گا تو وہ اسے کافی ہو گا۔‘‘ ذرا اس آیت کے اس حصہ پر غور کیجئے’’ فَہُوَحَسْبُہ’’وہ اسے کافی ہوگا۔‘‘اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے : (وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا )(الاحزاب:۳) ’’اور اللہ پر بھروسہ کرو ۔ وہ اللہ بگڑی بنانے کے لیے کافی ہے ۔‘‘ ایک آدمی نے حضرت معروف کرخی سے کہا کہ مجھے کوئی نصیحت کر دیجئے تو آپ نے فرمایا: اللہ عزو جل پر ایسا بھروسہ کر کہ وہ تیرا ہمسائیہ اور ساتھی بن جا ئے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا،اپنے معاملات اسے سونپ دینا اور اپنے دل کو اس کی طرف متوجہ کر لینا ایسے بڑے اسباب ہیں کہ جن کی وجہ سے فائدہ دینے والی چیزیں حاصل ہوتی، ناپسندیدہ چیزیں دور ہوتی اور حاجات پوری ہوتی ہیں۔ جب کبھی آپ دل کی گہرائی سے توکل کے معانی پر غور کریں گے تو گو ہر مقصود ہاتھ آجا ئے گا اور تحقیق مکمل ہو جا ئے گی۔تمام انبیاء اور رسولوں کے اللہ تعالیٰ پر بھروسے کی کیفیت یہی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے خلیل سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں پھینک دیا گیا تو ان کے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور پوچھا: ’’کیا آپ کو میری ضرورت ہے؟ آپ نے جواباً فرمایا: تیری طرف تو کوئی حاجت نہیں البتہ اللہ تعالیٰ کی طرف ضرور حاجت ہے۔ کیوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے ، اور وہی کار ساز ہے ۔‘‘تو آگ آپ پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو گئی۔ حالانکہ جبرائیل علیہ السلام اپنے پروں سے آگ بجھانے پر قادر تھے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دل مخلوق سے نفع حاصل کرنے اور تکلیف دور کرانے پر راضی نہ تھا۔ اسی معنیٰ و مفہوم کو صحابہ کرام غزوہ احد سے اگلے دن حمراء الاسد کے مقام پر دہرا رہے تھے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
Flag Counter