Maktaba Wahhabi

110 - 186
الْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ )( البقرۃ:۱۵۵) ’’اور یقینا ہم تمھیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔ ‘‘ نیک شگون لینے والا مسلمان کبھی مایوس نہیں ہوتا اور نہ اپنے آپ کو پریشان کرتا ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: (إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللّٰهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ) (یوسف:۸۷) ’’بے شک حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتے مگر وہی لوگ جو کافر ہیں۔‘‘ واضح تکلیفوں اور آزمائشوں کے باوجود حضرت یوسف علیہ السلام ثابت قدم رہے اور مایوس نہیں ہوئے نتیجتاً اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کی اور انہیں زمین کے خزانوں پر نگہبان مقرر کر دیا۔ زندگی کے حادثات اور ان کی سختیاں جب کسی آدمی کو پیش آتی ہیں تو مایوسی سے اس کا رنگ تبدیل ہو جا تا ہے۔ حالانکہ مایوسی آدمیوں کے لیے ہلاکت، ان کے عزائم کو توڑنے والی اور عقل وشعور کو ڈانواں ڈول کر دیتی ہے۔ ان مایوس لمحات میں نیک شگون لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر نظر دوڑانے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ مایوس کن لمحات میں خوشخبر ی سنایا کرتے تھے۔ حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ اپنی دھاری دار چادر لپیٹ کر خانہ کعبہ کے سائے میں ٹیک لگائے ہوئے تشریف فرما تھے۔ مشرکین مکہ کی طرف سے پہنچنے والی سخت تکلیفوں کی وجہ سے میں نے آپ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے؟ (کہ وہ آسانی فرما دے)آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ ٔ مبارک سرخ
Flag Counter