Maktaba Wahhabi

231 - 352
اس کے بعد شیخ رحمہ اللہ نے قبر سے متعلق بعض امور کی طرف اشارہ فرمایا ہے،اور دو امور کو ذکر فرمایا: الأمر الاول: فتنۃ القبر:فتنہ کا لغوی معنی امتحان اور آزمائش ہے ،جبکہ یہاں فتنہ سے مراد ،دو فرشتوں کامیت سے سوال کرنا ہے،میت خواہ مرد ہو یا عورت ۔عام طورپہ اس موقع پر مرد ہی کا ذکر ہوتا ہے جوکہ از قبیلِ تغلیب ہوتاہے۔ پھر مؤلف رحمہ اللہ نے ان تین سوالوں کا ذکر کیا ہے جو فرشتوں کی طرف سے میت پر پیش ہوتے ہیں۔نیز یہ بتایا ہے کہ مؤمن کا جواب کیا ہوگا اور غیر مؤمن کا کیا۔اس جواب کے بعد قبر میں نعمتوں یا تکلیفوں کے حاصل ہونے کا ذکر فرمایا ہے۔ قبر میں فرشتوں کے سوال کرنے پر ایمان لانا واجب ہے، کیونکہ اس موضوع کی احادیث حدِ تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں، قرآن کریم کی یہ آیت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے: { یُثَبِّتُ اللّٰه الَّذِیْنَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ۔ وَیُضِلُّ اللّٰه الظَّالِمِیْنَ وَیَفْعَلُ اللّٰه مَایَشَائُ } (ابراھیم:۲۷) ترجمہ:’’ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے ،دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی ،ہاں ناانصاف لوگوںکواللہ بہکادیتا ہے اور اللہ جوچاہے کر گزرے‘‘ چنانچہ صحیحین میں جناب براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:[ آیت ’’یُثَبِّتُ اللّٰه الَّذِیْنَ آمَنُوا…‘‘ عذابِ قبر کے متعلق نازل ہوئی ہے] صحیح مسلم میں مزید یہ الفاظ بھی موجود ہیں کہ [قبر میں مؤمن سے سوال ہوتا ہے: من ربک؟ تو وہ جواب دیتا ہے: میرا رب اللہ ہے، اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو آیتِ کریمہ ’’یُثَبِّتُ اللّٰه الَّذِیْنَ آمَنُوا…‘‘ میں ثابت قدمی سے مراد مؤمن کا قبر میں صحیح اور درست جواب دینا ہے] آیتِ کریمہ میں القول الثابت سے مراد کلمۂ توحید ہے، جوکہ ہر مؤمن کے دل میں حجت وبرہان کے ساتھ ثابت ہے۔مؤمنوں کا اس کلمہ کے ساتھ دنیا میں ثابت قدم رہنے کا معنی یہ ہے
Flag Counter