Maktaba Wahhabi

225 - 352
شیخ رحمہ اللہ نے ان دونوں اقوال کو باطل قرار دیا ہے ،چنانچہ ’’ولا یجوز ا طلاق ا لقول بانہ حکایۃ عن کلام اللّٰه ‘‘ میں کلابیہ کا رد ہے ۔’’ أو عبا رۃ عنہ‘‘ میں اشاعرہ کا رد ہے ۔ پھر قرآن کے متعلق صحیح مؤقف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’بل ا ذ ا قرأہ النا س أوکتبوہ فی المصاحف لم یخرج بذ لک عن أن یکون کلام اللّٰه حقیقۃ‘‘ یعنی(قرآن مجید کے الفاظ ومعانی دونوں کلام اللہ ہیں چاہے یہ الفاظ ومعانی سینوں میں محفوظ ہوں یا زبان پرمتلوہوں یا مصاحف میں مکتوب ہوں ،ہر حال میںحقیقتاًکلام اللہ ہیں ،کسی بھی حالت میں کلام اللہ سے خارج نہیں۔ پھر شیخ رحمہ اللہ نے اس کی دلیل دیتے ہوئے فرمایا:’’ فان الکلام انما یضاف حقیقۃ الی من قالہ مبتدئا لا الی من قالہ مبلغا مؤد یا‘‘ (ترجمہ گزر چکاہے)یعنی مبلغ ومؤدی کی طرف نسبت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ وہ تو فقط واسطہ ہوتاہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: { وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَأَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلَامَ اللّٰه } ترجمہ:’’اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ طلب کرے تو ، تو اسے پناہ دے دے یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے ‘‘ (التوبہ: ۶) اس آیت میں سماع بواسطہ مبلغ کے ہے البتہ مسموع ( قرآن)کو کلام اللہ کہا گیا ہے ، یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ کلام کی اضافت اس کی طرف ہوتی ہے جس نے ابتداء ً کلام کیا ہو۔ (۴) معتزلہ: ان کا کہناہے کہ کلام اللہ صرف حروف ہوتے ہیں معانی نہیں۔ان کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ قول یا کلام عند الاطلاق صرف لفظ کا نام ہوتے ہیں،جبکہ معنی اس لفظ کا جزء نہیں بلکہ مدلول ہوتا ہے ۔معتزلہ کے مقابل اشاعرہ اور کلابیہ ہیں جن کا نظریہ ہے کہ کلام اللہ معانی ہے حروف نہیں۔ أھل السنۃ والجماعۃ کا مذہب اس مسئلہ میں یہ ہے کہ قرآن کے حروف ومعانی دونوں کلام اللہ ہیں اور یہی مذہب حق ہے کیونکہ کتاب وسنت کے نصوص اس مذہب پر دلالت کررہے ہیں۔
Flag Counter