Maktaba Wahhabi

224 - 352
’’ الیہ یعود‘‘کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آخر ی زمانہ میں قرآن کی نسبت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے گی، کسی اور کی طرف نہیں۔ (۲) الکلابیۃ: یہ عبد اللہ بن سعید بن کلاب کے اتباع ہیں ،قرآن کے متعلق ان کا نظریہ ہے کہ قرآن کلام اللہ نہیں ہے بلکہ کلام اللہ سے حکایت ہے ،کیونکہ ان کے نزدیک کلام اللہ کی تعریف یہ ہے کہ ’’ھو ا لمعنی ا لقا ئم فی نفسہ لازم لہ کلزوم ا لحیاۃوا لعلم لایتعلق بمشیئتہ وارادتہ‘‘ (یعنی کلام اللہ اس معنی کو کہتے ہیںجو اللہ تعالیٰ کی ذات میں قائم ہے اوراس کی ذات کیلئے ایسے لازم ہے جس طرح حیات اور علم اس کی ذات کو لازم ہیں کلام کا اللہ تعالیٰ کی مشیئت وارادہ سے کوئی تعلق نہیں) ان کا کہنا ہے کہ یہ معنی جو اس کی ذات میں قائم ہے ،غیر مخلوق ہے ،البتہ یہ الفاظ جو کہ حروف واصوات پر مشتمل ہیں ،مخلوق ہیں،یہ الفاظ کلام اللہ نہیں ہیںبلکہ کلا م اللہ سے حکایت ہیں۔ (۳) الاشاعرۃ: یہ ابو الحسن الأشعری کے اتباع ہیں: ان کا کہنا ہے کہ قرآن کلام اللہ کی تعبیر ہے، کیونکہ یہ کلام اللہ کی تعریف’’ معنی قائم بنفسہ‘‘(وہ معنی جو اللہ کی ذا ت میںقائم ہے) سے کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ معنی غیر مخلوق ہے،البتہ یہ الفاظ جو پڑھے جاتے ہیں یہ اس معنی قائم بنفسہ کی تعبیر ہیں،اور یہ الفاظ مخلوق ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان الفاظ کو اس معنی قائم بنفسہ سے حکایت کہنا درست نہیں۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ اشاعرہ اور کلابیہ کا یہ اختلاف محض لفظی ہے، کیونکہ ان دونوں گروہوں کاکہناہے کہ قرآن کی دو نوع ہیں: الفاظ اور معانی۔الفاظ مخلوق ہیں اور یہ وہی الفاظ ہیںجو قرآن پاک میں موجود ہیں۔اور معانی قدیم ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں،جو درحقیقت ایک ہی معنی ہیں،جن میں ابعاض اور تعدد نہیں ہے۔بہرحال یہ دونوں قول اگر ایک نہیں تو قریب قریب ضرور ہیں۔
Flag Counter