Maktaba Wahhabi

207 - 352
گئے، اس موقع پر حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’انہ اعتزلنا ‘‘یعنی واصل بن عطاء نے ہم سے اعتزال (علیحدگی ) اختیار کرلی ہے، اس بناپر ان کا نام معتزلہ پڑگیا۔ مرتکبِ کبیرہ کے متعلق خوارج ،معتزلہ کا مسلک انتہائی متشددانہ ہے یہ مرتکبِ کبیرہ کو اسلام سے خارج سمجھتے ہیں، البتہ معتزلہ اسے کافر نہیں کہتے بلکہ کہتے ہیں کہ مرتکبِ کبیرہ اسلام اور کفر کے درمیان ایک تیسرے منزلہ پر ہے، جبکہ خوارج اسے کافر کہتے ہیں، خوارج اور معتزلہ اس بات پر متفق ہیں کہ مرتکبِ کبیرہ اگر اسی حالت پر مرگیا تو ہمیشہ جہنم میں رہیگا۔ معتزلہ اور خوارج کے تشدد کے مقابلہ میں مرجئہ اور جہمیۃ نے مرتکبِ کبیرہ کے حکم کے متعلق انتہائی تساھل اختیار کیا ہوا ہے ،ان کا کہنا ہے کہ ’’لایضر مع الایمان معصیۃ‘‘ ایمان کی موجودگی میں معصیت نقصان دہ نہیں ہے ،کیوں کہ ان کا نظریہ ہے کہ ایمان صرف تصدیق القلب کا نام ہے ،البتہ ان میں بعض تصدیق القلب کے ساتھ ساتھ اقرار باللسان کو بھی ضروری قرار دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اعمال ایمان میں داخل نہیں ،لہذا اطاعت سے ایمان میں اضافہ نہیںہوتا اور معصیت سے ایمان میں نقص پیدا نہیں ہوتا ،کیونکہ معاصی سے ایمان میں نقص پیدا نہیں ہوتا ،لہذا مرتکبِ کبیرہ اگر گناہ کو حلال نہ سمجھتا ہوتو جہنم میں داخل نہ ہوگا۔ اہل السنۃ والجماعۃ اس مسئلہ میں وسطیت اور اعتدال پر قائم ہیں، ان کا کہنا ہے کہ نافرمان محض ارتکابِ معصیت سے ایمان سے خارج نہیں ہوجاتا،بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے تحت ہے ،اگر اللہ چاہے تواسے معاف فرمادے ،اور اگر اللہ چاہے تو عذاب میں مبتلا کردے ، لیکن ہمیشہ عذاب میں نہیں رہیگا،جیسا کہ خوارج اور معتزلہ کا باطل عقیدہ ہے ۔ اہل السنۃ کا موقف ہے کہ معاصی ایمان میں نقص پیدا کرتے ہیں اور یہ کہ نافرمان جہنم کا مستحق ہے الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمادے ،اہل السنۃ والجماعۃ کا یہ موقف ہے کہ مرتکبِ کبیرہ فاسق اور ناقص الایمان ہے نہ کہ کامل الایمان جیسا کہ مرجئہ کا نظریۂ ہے۔(واللہ اعلم)
Flag Counter