Maktaba Wahhabi

165 - 352
کے منافی بھی نہیں ہے۔ (۲) اللہ تعالیٰ کافرمان:’’لَنْ تَرَانِیْ‘‘ سے عدمِ رؤیت پر استدلال۔(یعنی جہمیہ وغیرہ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان :’’لَنْ تَرَانِیْ‘‘ سے بھی استدلال کیا ہے، یہ بات اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ ’’تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتے۔‘‘ الجواب: اس استدلال کا جواب یہ ہے کہ آیت میں رؤیۃ فی الدنیا کی نفی ہے، رؤیۃ فی الآخرۃ کی نفی نہیں ،کیونکہ رؤیۃ فی الآخرۃ تو ادلہ سے ثابت ہے، نیز آخرت کا معاملہ دنیا کے معاملہ سے مختلف ہے (اس لئے ایک دوسرے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا) (۳) اللہ تعالیٰ کا فرمان:’’لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ‘‘ (آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں)سے عدمِ رؤیت پر استدلال۔ الجواب: اس استدلال کا جواب یہ ہے کہ آیت میںادراک کی نفی ہے ،رؤیت کی نفی نہیں، ادراک کا معنی احاطہ کرنا ہے، توآیت کا صحیح معنی یہ ہے کہ اہل ایمان اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے مگر اس کا احاطہ نہ کرسکیں گے ، اس معنی کی روشنی میں ادراک کی نفی سے وجودِ رؤیت لازم آرہا ہے۔ (کیونکہ رؤیت ہے تبھی تو احاطہ کی نفی ہے، اگر رؤیت ہی نہیں تو احاطہ کی نفی چہ معنی دارد)گویا آیتِ کریمہ تو اللہ تعالیٰ کی رؤیت کے اثبات کے دلائل میں سے ہے۔(واللہ اعلم) مؤلف رحمہ اللہ آخر میں فرما تے ہیں’’ وھذا الباب فی کتاب اللّٰه کثیر ،ومن تدبر القرآن طالبا للھدی تبین لہ طریق الحق‘‘ یعنی اثبات اسماء وصفات کا موضوع قرآن میں کثرت سے بیان ہوا ہے ، البتہ ہم نے بقدرِ ضر ورت چند مقامات کا ذکر کردیا ہے، جوان آیات پر طلبِ ہدایت کی نیت سے غور وفکر کرے گا، حق اس پر واضح ہوجائے گا (ان شاء اللہ ) اور حقیقت بھی یہی ہے تلاوتِ قرآن سے اصل مقصود ومطلوب تدبر وتفکر (غور وفکر) ہے جیسا
Flag Counter