سعید بن جبیر، عکرمہ۔ اور ابن عباس کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔) کہ جب ایک شخص ہمارے پاس آیا اور پوچھا کہ کیا کوئی فتوی دینے والا ہے؟ ہم نے کہا کہ پوچھیے، تو اس نے کہا کہ میں جب بھی پیشاب کرتا ہوں تو اس کے بعد اچھلنے والا پانی آتا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ وہ پانی کہ جس سے بچہ پیدا ہوتا ہے؟ اس نے کہا جی بالکل۔ ہم نے کہا کہ پھر آپ پر غسل ضروری ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ شخص واپس جاتے ہوئے انا للہ وإنا الیہ راجعون پڑھ رہا تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جلدی جلدی نماز پڑھی۔ پھر عکرمہ سے کہا کہ اس شخص کو میرے پاس لائیے۔ اور پھر وہ ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمانے لگے کہ آپ نے اس شخص کو جو فتوی دیا ہے، اس کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ کیا وہ قرآن مجید سے تعلق رکھتا ہے؟ ہم نے کہا کہ نہیں ۔ انھوں نے کہا کہ تو کیا رسول اللہ کی سنت سے؟ ہم نے کہا کہ نہیں ۔ پوچھا کہ تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے؟ ہم نے عرض کیا کہ نہیں ۔ کہنے لگے تو کہاں سے؟ ہم نے کہا کہ اپنی رائے سے ہم نے یہ فتوی دیا ہے۔ کہنے لگے کہ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ایک فقیہ شیطان پر ہزار عبادت گزاروں سے برتر ہے۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ اتنے میں وہ شخص آگیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما اس طرح متوجہ ہوگئے اور کہا کہ کیا کہتے ہوکہ اگر آپ کے ساتھ یہ معاملہ پیش آئے تو کیا شرم گاہ میں شہوت ہوتی ہے؟ کہنے لگا کہ نہیں ۔ کہا کہ کیا اپنے جسم میں کپکپاہٹ پاتے ہو؟ کہنے لگا کہ نہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ یہ سرد پن ہے، اس سے آپ کو وضو کفایت کرجائے گا۔‘‘
﴿متفق علیہ ﴾اور ﴿رواہ الشیخان﴾ میں کیا فرق ہے؟ اپنے استاذ کی رہنمائی سے حل کیجئے۔
جب کسی شخص کو احتلام ہوجائے لیکن مادہ منویہ نظر نہ آئے تو اس پر غسل نہیں ہے۔ ابن منذر کہتے ہیں کہ ’’ اہل علم میں سے جن سے میں نے سیکھا ہے، ان کا اس پر اجماع ہے۔‘‘ ام سلیم رضی اللہ عنہ کی گذشتہ بالا حدیث میں ہے کہ ’’ کیا خاتون پر جب اسے احتلام ہوجائے غسل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ہاں جب وہ پانی دیکھے۔‘‘ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی
|