Maktaba Wahhabi

99 - 268
اسے کوئی سزا نہ دی۔ غور فرمائیے اس دشمن قبیلے کا ایک مشرک تلوار سونتے سر پر کھڑا ہے جس سے جنگ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گئے تھے۔ اس حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے ثبات میں ذرہ بھر لغزش نہیں آئی… پھر یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ جو لوگ جس قدر شجاع اور بہادر ہوتے ہیں اتنا ہی ان میں رحم وکرم بھی زیادہ ہوتا ہے چنانچہ اس پر پورا اختیار رکھنے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو معاف کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گنوار بعد میں نہ صرف خود مسلمان ہوا بلکہ اس کے ذریعہ اس کے قبیلے کے بہت سے لوگ حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے۔ غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کے واقعات تو بیشمار ہیں ۔ لیکن ہم نے صرف ایسے واقعات درج کیے ہیں جن کا تعلق صرف جنگ سے ہے۔ حضرت علی ص جن کی اپنی شجاعت ضرب المثل بن چکی ہے، جنہوں نے جنگ بدر اور خندق میں دعوت مبارزت دینے والے کفار کو ایک وار سے جہنم واصل کیا، جن کے ہاتھوں خیبر کا سب سے مضبوط قلعہ قموص فتح ہوا، وہ حضرت علی ص فرماتے ہیں: «اِنَّا کُنَّا اِذَا حَمَی الْبَاسُ وَاَحْمَرَّتْ الْحَدَقُ اتَّقَیْنَا بِرَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّهُٰ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَمَا یَکُوْنُ اَحَدًا اَقْرْبُنَا اِلَی الْعَدُوِّمِنْهُ»[1] (جب گھمسان کا رن پڑتا اور لڑنے والوں کی آنکھوں میں خون اتر آتا اس وقت ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اوٹ لیا کرتے تھے۔ اور سب سے آگے دشمن کی جانب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوتے تھے۔) ہجرت کے دوران جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سازشیوں کے مسلح پہرہ سے بچ کر نکل آئے تو حضرت ابوبکر ص کو ساتھ لے کر غار ثور میں پناہ لی۔ قریش اپنی ناکامی پر بہت سیخ پا ہوگئے۔ اور ہر طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں آدمی روانہ کیے اور سواونٹ انعام بھی مقرر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالات سے با خبر رہتے تھے۔ مسلسل تین دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش جاری رہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس غار میں پناہ گزیں رہے۔ غصہ سے بپھرے ہوئے قریشیوں کے چند افراد غار کے دہانے تک پہنچ گئے۔ اگروہ لوگ اپنے قدموں کی طرف دیکھتے تو غار کے اندر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت اوبوبکر ص ان کو بآسانی نظر آسکتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ص جیسے بہادر اور جری انسان نے جب ان کو دیکھا
Flag Counter