Maktaba Wahhabi

241 - 268
دادا کی وحشت و بر بریت کو بھی مات کر دیا۔ نپولین کی ۱۸۰۷؁ ء سے بعد کی زندگی، ناکامیوں اور مایوسیوں کی پُر درد داستان بن گئی لہٰذا وہ اپنے سالاروں کی کیا تربیت کرتا؟ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشینوں کا حال سنیے۔ ان میں سے ایک خالد بن ولید ہیں۔ جنہوں نے: ٭ جنگ موتہ میں تین ہزار فوج سے دشمن کی ایک لاکھ فوج کا منہ پھیر دیا۔ ٭ عراق و ایران کا بیشتر اور شام کا نصف حصہ فتح کیا۔ ٭ اسلام لانے کے بعد زندگی بھر کبھی شکست کا منہ نہیں دیکھا ، آپ رضی اللہ عنہ کی ہمیشہ یہ آرزو رہی کہ میدانِ جنگ میں شہادت نصیب ہو مگر یہ آروز پوری نہ ہوئی۔ ٭ خالد رضی اللہ عنہ کی معزولی کا ایک اہم سبب یہ بھی تھا کہ لوگ سمجھنے لگ گئے تھے کہ فتح اور خالد رضی اللہ عنہ بن ولیدلازم و ملزوم ہیں۔ ٭ خالد رضی اللہ عنہ کا کردار اتنا بلند تھا کہ عین معرکہ حق و باطل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے معزولی کا حکم ملتا ہے تو کسی قسم کا ملال لائے بغیر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بن الجراح کی ماتحتی میں ہی جوش و خروش سے جنگ میں حصہ لیتے ہیں۔ پھر ان میں سے ایک خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں جو دربار خلافت میں بیٹھ کر تمام جنگوں کے نقشے خود تیار کرتے تھے۔ سپہ سالاروں کے بارے میں بڑی دور اندیشی سے کام لیتے اور انہیں مسلسل ہدایات جاری کرتے رہتے تھے۔ ان سے کام لینا جانتے تھے۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ آپ کے حکم سے سرتابی کرے ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اپنے دَور میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود سپہ سالار اعظم تھے۔ پھر ان میں سے ایک حضرت عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے شام کا بہت سا علاقہ بھی فتح کیا۔ جنہیں حضرت عمر﷜ مزید پیش قدمی سے روکتے ہی رہے۔ لیکن آپ نے کسی نہ کسی حیلے بہانے ان کی اجازت لے کر پورے مصر کو فتح کر ڈالا۔ اور فاتح مصر کہلائے۔ پھر ان میں سے ایک ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ ہیں جن کی عظمت کے لیے یہ بات کافی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے مدبر سیاست دان نے خالد رضی اللہ عنہ بن ولید کو معزول کرکے سپہ سالاری کا
Flag Counter