Maktaba Wahhabi

183 - 268
(۹) کوئی شخص اپنے غلام سے یوں نہ کہے کہ اپنے رب کو کھانا کھلا یا پانی پلا بلکہ یوں کہے کہ اپنے سردار کو یا اپنے آقا (سیدی ومولائی) کو پلا ؤ ۔ اور کوئی آقا میرا غلام (عبدی) یا میری لونڈی (اَمَتِیْ) بھی نہ کہے بلکہ یوں کہے میرا آدمی یا لڑکا یا خدمت گار۔ (فَتَایَ و فتاتی وغلامی) (بخاری حوالہ ایضاً) اور غلام کو مکاتبت (بالا قساط اپنی آزادی کی قیمت ادا کردینے کی تحریر )کا حق تو قرآن سے ثابت ہے۔ ارشاد باری ہے: ﴿ وَالَّذِيْنَ يَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِيْهِمْ خَيْرًا ڰ وَّاٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِيْٓ اٰتٰىكُمْ ۭ ﴾ (۲۴/۳۳) (لونڈی غلاموں میں جو مکاتب بننا چاہیں۔ ان سے مکاتبت کر لواگر تم ان میں بھلائی (اس کی اہلیت) دیکھو۔ پھر اس مال سے جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔ اس میں سے انہیں بھی دو۔) گویا صرف مکاتبت کا حق ہی نہیں ان کی مالی امداد کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ اس دور میں دنیا بھر میں غلامی کا دور دورہ تھا اور غلام معاشرہ کا ایک اہم جزو مقصود ہوتا تھا۔ اسلام نے سب سے پہلے تو اسیرانِ جنگ کے متعلق یہ فیصلہ کرکے کہ ’’انہیں احسان رکھ کر یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے‘‘۔ غلامی کی اصل بنیاد پر کاری ضرب لگائی۔ غلاموں سے بہتر سلوک اور اونچ نیچ کا امتیاز ختم کرکے انہیں مساوی مقام پر لاکھڑا کیا۔ ‘‘غلام کو آزاد کرنا‘‘ بہترین نیکی قرار دیا اور زکوٰۃ میں سے ایک حصّہ غلاموں کو آزاد کرانے کے لیے مختص کیا۔ کئی گناہوں کا کفارہ ’’غلام کو آزاد کرنا‘‘ قرار دیا۔ ان سب عوامل کا نتیجہ یہ ہوا کہ غلامی کی یہ رسم بتدریج ختم ہوتی گئی۔ اسلامی فتوحات کے لحاظ سے دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دورِ فاروقی کا نمبر ہے۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فاتح مصر نے یہ علاقہ فتح کرلیا حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اس اجازت سے فائدہ اُٹھا کر بہت سے لوگوں کو لونڈی اور غلام بنا لیا اور وہ فروخت ہوکر عرب میں پھیل گئے ۔ یہ سلسلہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اسلامی روح کے منافی معلوم ہوا تو انہوں نے سرکاری سطح پر اس کے خلاف اقدامات کیے اور بڑی کاوش سے ہر جگہ سے ان کو واپس لے کر مصر بھیج دیا اور لکھ بھیجا کہ ان کو اختیار ہے خواہ اسلام لائیں یا اپنے مذہب پر رہیں۔ چنانچہ ان میں سے قصبہ بلہیب کے رہنے
Flag Counter