تنبیہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک ضعیف حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز میں مسلسل قنوت پڑھتے رہے یہاں تک کہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ [ احمد : ۳/۱۶۲ ، الدارقطنی : ۲/۳۹ ۔ وضعفہ الألبانی فی السلسلۃ الضعیفۃ : ۲۳۸ ۔ اور میں نے امام ابن باز رحمۃ اللہ علیہ سے بھی بلوغ المرام کی حدیث : ۳۲۵کی شرح کے دوران سنا تھا کہ یہ روایت ہر حال میں ضعیف ہے اور حضرت سعد بن طارق رضی اللہ عنہ کی حدیث اس کے ضعیف ہونے کی دلیل ہے ] 3. دائمی سنتوں میں تیسری قسم نمازِ چاشت ہے 1. نمازِ چاشت سنتِ مؤکدہ ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اسے پڑھتے رہے ، اور آپ نے اپنے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا تاکیدی حکم دیا ، اور ایک آدمی کوتاکیدی حکم پوری امت کیلئے تاکیدی حکم ہوتا ہے ، الا یہ کہ کسی شخص کیلئے اس کے خاص ہونے کی دلیل ثابت ہو ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ( أَوْصَانِیْ خَلِیْلِیْ صلی اللہ علیہ وس7لم بِثَلاَثٍ [ لاَ أَدَعُہُنَّ حَتّٰی أَمُوْتَ ] ، صِیَامِ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ ، وَرَکْعَتَیْ الضُّحٰی ، وَأَنْ أُوْتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ) ’’ مجھے میرے خلیل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کا تاکیدی حکم دیا ہے ، جنہیں میں مرتے دم تک نہیں چھوڑوں گا ، ہر مہینے میں تین دن کے روزے ، چاشت کی دو رکعات ، اور یہ کہ میں نمازِ وترسونے سے پہلے پڑھوں ۔‘‘[ البخاری : ۱۹۸۱ ، ۱۱۷۸ ، مسلم : ۷۲۱ ] اور بعینہ یہی وصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کو بھی فرمائی ۔ [مسلم : ۷۲۲ ] |