کوئی حرج نہیں ، کیونکہ اس کی نماز کا بیشتر حصہ ختم ہو چکا تھا ، اور اب تھوڑا ( ایک رکعت سے بھی کم ) حصہ باقی تھا ، اور چونکہ أقل الصلاۃ ( کم از کم نماز ) ایک رکعت ہے ، اور اس کی تو ایک رکعت بھی پوری باقی نہ تھی ، اس لئے اسے مکمل کرلینا حدیثِ مذکور کے مخالف نہیں ۔‘‘ [ مجموع فتاوی ومقالات متنوعہ لابن باز : ۱۱/۳۹۳۔ ۳۹۴ ، ۱۱/ ۳۷۰ ۔ ۳۷۲ ] 7. فجر کی سنتوں اور وتر کے علاوہ باقی سنتوں کو بحالتِ سفر چھوڑ دینا سنت ہے عاصم بن عمر بن الخطاب کہتے ہیں کہ میں مکہ کے راستے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا ، انہوں نے ہمیں نمازِ ظہر کی دو ر کعات پڑھائیں ، پھر ہم آپ کے ساتھ وہاں چلے گئے جہاں ہم نے پڑاؤ ڈالا ہوا تھا ، آپ بھی بیٹھ گئے اور ہم بھی بیٹھ گئے ، اسی دوران ان کی نظر اس جگہ کی طرف گئی جہاں انہوں نے نماز پڑھائی تھی ، انہوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ ابھی تک وہیں کھڑے ہوئے ہیں ، چنانچہ انہوں نے پوچھا ، یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ؟میں نے جواب دیا: یہ نفل نماز پڑھ رہے ہیں ، انہوں نے کہا : اگر مجھے نفل نماز پڑھنی ہوتی تو میں ظہر کی نماز پوری پڑھتا (قصر نہ کرتا ) ، اے میرے بھتیجے ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعات سے زیادہ نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کی روح قبض کر لی ، پھر میں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی سفر کیا ، لیکن آپ نے بھی دور کعات سے زیادہ نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کی روح قبض کر لی ، پھر میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی سفر کیا ، |