یعنی ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اور اس کے علاوہ باقی تمام مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ، پہلے چار رکعات یوں ادا فرماتے کہ ان کی خوبصورتی اور طوالت کے بارے میں مت پوچھو ، پھر چار رکعات اس طرح ادا فرماتے کہ ان کی خوبصورتی اور طوالت کے بارے میں بھی مت پوچھو ، پھرتین رکعات ادا فرماتے ۔۔۔۔‘‘ [ البخاری : ۱۱۴۷ ، مسلم : ۷۳۸ ] اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے چار رکعات پڑھتے ، پھر چار رکعات اور پھر تین رکعات پڑھتے ۔۔۔۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پہلی چار اور دوسری چار کے درمیان کچھ فاصلہ ہوتا ، اور اسی طرح دوسری چار اور ان کے بعد تین رکعات کے درمیان بھی فاصلہ ہوتا ، اور یہ بات معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعات کے بعد سلام پھیرتے تھے ، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعات کے بعد سلام پھیرتے تھے اور آخر میں ایک رکعت کے ساتھ وتر پڑھتے ۔ [ مسلم : ۷۳۶ ، نیز دیکھئے : الشرح الممتع لابن عثیمین : ۴/۶۶] گویا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت پہلی روایت کی تفسیر کر رہی ہے، اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ ( صَلاَۃُ اللَّیْلِ مَثْنٰی مَثْنٰی) ’’ رات کی نفل نماز دو دو رکعات ہے ‘‘ [البخاری : ۹۹۰ ، مسلم : ۷۴۹ ] بھی اسی بات کو واضح کر رہا ہے ۔ 2. نمازِ تروایح سنتِ مؤکدہ ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان سے بھی اس کی فضیلت بیان فرمائی اور اپنے عمل سے بھی اس کی تاکید کی ، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قیامِ |