ترجمہ : ’’ اور رات کے آخری حصے میں استغفار کرنے والے ہیں ۔‘‘ 3. رات کے قیام کی فضیلت انتہائی عظیم ہے کیونکہ : 1. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا اتنا اہتمام فرماتے کہ آپ کے پاؤں مبارک پر ورم آ جاتا ، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو ( اتنا طویل ) قیام فرماتے کہ آپ کے پاؤں مبارک پھٹنے لگتے ، میں عرض کرتی ، اے اللہ کے رسول ! آپ ایسا کیوں کرتے ہیں ، حالانکہ اللہ تعالی نے آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف فرما دی ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے : ( أَفَلاَ أَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا ) ’’ کیا میں شکر گذا ربندہ نہ بنوں ؟ ‘‘ [ البخاری : ۴۸۳۷ ، مسلم : ۲۸۲۰] اور حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا قیام فرمایا کہ آپ کے پاؤں مبارک پر ورم ہو گیا ، آپ سے کہا گیا کہ اللہ تعالی نے آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کردی ہیں ، پھر بھی آپ اتنا لمبا قیام کرتے ہیں ! توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( أَفَلاَ أَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا ) ’’ کیا میں شکر گذا ربندہ نہ بنوں ؟ ‘‘ [البخاری : ۴۸۳۶ ، مسلم : ۲۸۱۹] اور حضرت عبد اللہ بن رواحۃ رضی اللہ عنہ نے چند اشعار میں آپ کے قیام کی کیفیت یوں بیان کی : وفینا رسول اللّٰہ یتلو کتابہ إذا انشق معروف من الفجر ساطع یبیت یجافی جنبہ عن فراشہ إذا استثقلت بالکافرین المضاجع ترجمہ : ’’ اور ہم میں ایک ایسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو اس وقت کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں جب صبح صادق کی روشنی پھیلتی ہے ، اور آپ رات اس حالت میں |