شاگردوں نے پہلے قول کو اختیار کیا ہے ۔ شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : ’’ نمازِ وتر میں دعائے قنوت کاپڑھنا جائز ہے ، لازم نہیں ہے ، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بعض نے سرے سے قنوت پڑھی ہی نہیں ، اور بعض نے رمضان المبارک کے آخری پندرہ دنوں میں پڑھی ، اور بعض نے پورا سال پڑھی ، اور یہی وجہ ہے کہ ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے ،چنانچہ مذکورہ تین آراء میں سے پہلی رائے کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ، دوسری کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے ، اور تیسری کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار کیا ہے ، اور یہ تینوں آراء جائز ہیں ، کوئی شخص ان میں سے جس رائے پر عمل کرلے اس پر کوئی ملامت نہیں ہے ۔‘‘ [ الفتاوی : ۲۳/۹۹ ، نیز دیکھئے : المغنی لابن قدامہ : ۲/۵۸۰ ، شرح صحیح مسلم للنووی : ۵/۱۸۳ ، نیل الأوطار للشوکانی : ۲/۲۲۶ ] 8. دعائے قنوت میں ہاتھ اٹھانا اور مقتدیوں کا آمین کہنا حضرت سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( إِنَّ رَبَّکُمْ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی حَیِیٌّ کَرِیْمٌ ، یَسْتَحْیٖ مِنْ عَبْدِہٖ إِذَا رَفَعَ یَدَیْہِ أَنْ یَّرُدَّہُمَا صِفْرًا ) ترجمہ : ’’ بے شک تمہارا رب ‘ جو کہ بابرکت اور بلند وبالا ہے ‘ حیاء اور کرم والا ہے ، اور جب اس کا کوئی بندہ اپنے ہاتھ بلند کرتا ہے تواسے شرم آتی ہے کہ وہ انہیں خالی لوٹا دے ۔‘‘[ ابو داؤد : ۱۴۸۸ ، الترمذی : ۳۵۵۶ ، ابن ماجہ : ۳۸۶۵ ، والبغوی فی شرح السنۃ : ۵/۱۸۵ ۔ وصححہ الألبانی ] |