میں آپ کے سامنے آپ کے بستر پرسوئی ہوئی ہوتی تھی ، پھر جب آپ وتر پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو مجھے بھی بیدار کردیتے ، پھر میں بھی وتر ادا کرلیتی ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وتر پڑھتے تو مجھے کہتے : ( قُوْمِیْ ، فَأَوْتِرِیْ یٰا عَائِشَۃُ ) ’’اے عائشہ ! اٹھو اور وتر پڑھ لو ‘‘ [ البخاری : ۹۹۷ ، مسلم : ۷۴۴ ] امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : ’’ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ وتر رات کے آخری حصے میں پڑھنا مستحب ہے ، چاہے انسان تہجد پڑھتا ہو یا نہ پڑھتا ہو ، بشرطیکہ اسے رات کے آخری حصے میں بیدار ہونے کا یقین ہو ، چاہے خود بخود بیدار ہو یا کوئی اور اسے بیدار کردے ، اور جہاں تک سونے سے پہلے وتر پڑھنے کے حکم کا تعلق ہے تو وہ اس شخص کے حق میں ہے جسے سو کر بیدار ہونے کا یقین نہ ہو ‘‘ [ شرح صحیح مسلم : ۲/۲۷۰ ، فتح الباری : ۲/۴۸۷ ] 13. وتر فوت ہو جائے تو اسے قضا کرنا چاہئیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز شروع فرماتے تو اسے ہمیشہ جاری رکھتے ، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نیند غالب آجاتی یا آپ کو کوئی تکلیف ہوتی جس سے آپ قیامِ لیل نہ کر پاتے تو دن کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارہ رکعات پڑھ لیتے ، اور مجھے نہیں معلوم کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایک ہی رات میں پورا قرآن مجید پڑھا ہو ، اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پوری رات نماز پڑھی ، اور نہ ہی کبھی پورا مہینہ روزے رکھے سوائے ماہِ رمضان کے ۔۔۔۔[ مسلم : ۷۴۶] اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا : ( مَنْ نَامَ عَنْ حِزْبِہٖ أَوْ نَامَ عَنْ شَیْئٍ مِنْہُ فَقَرَأَہُ بَیْنَ صَلاَۃِ الْفَجْرِ وَصَلاَۃِ |