’’ ان احادیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ سفر سے لوٹ کر واپس آنے والے شخص کیلئے مستحب یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے مسجد میں دو رکعتیں ادا کرے ، اور یہ نماز سفر سے واپسی کی نماز ہے نہ کہ تحیۃ المسجد ، اور مذکورہ احادیث میں اس بات کی صراحت موجود ہے ، اور ان میں یہ بھی ہے کہ چاشت کے وقت اپنے گھر میں پہنچنا مستحب ہے ، اور یہ بھی ہے کہ مرتبہ کے لحاظ سے بڑے آدمی کو ‘ جسے سفر سے واپسی پر عموما لوگ سلام کرنے کیلئے آتے ہیں ‘ اسے چاہئیے کہ وہ واپس آکر اپنے گھر کے قریب کسی ایسی جگہ پر بیٹھے جہاں لوگ بآسانی اس سے ملاقات کر سکیں ، چاہے وہ مسجد ہو یا کوئی اور جگہ ۔‘‘ [ شرح مسلم للنووی : ۵/۲۳۶ ، فتح الباری : ۱/۵۳۷ ] (۴) نمازِ استخارہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام امور میں استخارے کی تعلیم اتنے اہتمام کے ساتھ دیتے تھے جیسا کہ ہمیں قرآن مجید کی ایک سورت کی تعلیم دے رہے ہوں ، آپ فرماتے تھے : ترجمہ : ’’ تم میں سے کسی شخص کو جب کسی معاملے میں پریشانی ہو تو وہ دو رکعتیں نماز نفل پڑھے ، پھر یہ دعا پڑھے : ( اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ ، وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلاَ أَقْدِرُ ، وَتَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ ، وَأَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ ، اَللّٰہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ أَمْرِیْ ( أَوْ قَالَ : عَاجِلِ أَمْرِیْ وَآجِلِہٖ ) فَاقْدُرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ، وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ أَمْرِیْ ( أَوْ قَالَ : عَاجِلِ آمْرِیْ وَ آجِلِہٖ ) فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدُرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ، ثُمَّ رَضِّنِیْ بِہٖ ) ترجمہ : ’’ اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے علم کے ساتھ خیر کا طلبگار ہوں ، اور تیری |