Maktaba Wahhabi

53 - 181
اور یہ دونوں حدیثیں اس بات کی دلیل ہیں کہ نمازِ وتر واجب نہیں ہے ، تاہم سنتِ مؤکدہ ضرور ہے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اور اسی طرح سنتِ فجر کو سفر وحضر میں کبھی نہیں چھوڑا ۔ [ زاد المعاد : ۱/۳۱۵ ، المغنی لابن قدامہ : ۳/۱۹۶ ، ۲/ ۲۴۰ ] اور یہی جمہور علماء کا مذہب ہے ، جبکہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہ ہے کہ نمازِ وتر واجب ہے ، اور ان کی دلیل وہ احادیث ہیں جو بظاہر اس کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں ، لیکن ہم نے جو دلائل ذکر کئے ہیں ان کی بناء پر وجوب کی دلالت ختم ہو جاتی ہے ۔ [ نیل الأوطار : ۲/۲۰۵ ۔ ۲۰۶ ] اور شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہ ہے کہ وتر اس شخص پر واجب ہے جو رات کو تہجد پڑھتا ہو ، اور ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ اسے مطلقا واجب قرار دیتے ہیں ان میں سے بعض کا مذہب بھی یہی ہے کہ یہ صرف تہجد پڑھنے والے شخص پر واجب ہوتا ہے ۔ [ الاختیارات الفقہیہ لشیخ الإسلام ابن تیمیہ للبعلی : ص ۹۶ ] اور میں نے اپنے استاذ امام عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ سے بلوغ المرام کی حدیث : ۳۹۳ اور الروض المربع ( ۲/۱۸۳) کی شرح کے دوران کئی مرتبہ سنا کہ نمازِ وتر واجب نہیں بلکہ سنتِ مؤکدہ ہے ۔ [ نیز دیکھئے : المغنی لابن قدامہ : ۲/۲ ، ۵۹۱ ، ۵۹۵ ] 2. وتر کی فضیلت : وتر کی بڑی فضیلت ہے ، جیسا کہ حضرت خارجہ بن حذافۃ العدوی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ نے ارشاد فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَدْ أَمَدَّکُمْ بِصَلاَۃٍ وَہِیَ خَیْرٌ لَّکُمْ مِّنْ حُمُرِ النَّعَمِ ،
Flag Counter