وَہِیَ الْوِتْرُ ، فَجَعَلَہَا لَکُمْ فِیْمَا بَیْنَ الْعِشَائِ إِلٰی طُلُوْعِ الْفَجْرِ ) ترجمہ : ’’ بے شک اللہ تعالی نے تمہیں ایک نماز زائد عطا کی ہے ، جو کہ سرخ اونٹوں سے بہتر ہے ، اور وہ ہے نمازِ وتر ، اور اسے اللہ تعالی نے تمہارے لئے عشاء اور فجر کے درمیان رکھ دیاہے ۔‘‘[ ابو داؤد : ۱۴۱۸ ، الترمذی : ۴۵۲ ، ابن ماجہ : ۱۱۶۸ ، والحاکم ۱/۳۰۶ ، وصححہ ووافقہ الذہبی ] اور اس کی فضیلت اور اس کے سنت ہونے کی ایک اور دلیل حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ وتر ادا کی ، پھر فرمایا : ( یٰا أَہْلَ الْقُرْآنِ ! أَوْتِرُوْا ، فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ ) ترجمہ : ’’ اے قرآن والو ! وتر پڑھا کرو ، کیونکہ اللہ تعالی بھی وتر ہے اور وہ وتر کو پسند فرماتا ہے ۔‘‘ [ النسائی : ۱۶۷۶، الترمذی : ۴۵۳ ، ابو داؤد : ۱۴۱۶ ، ابن ماجہ : ۱۱۶۹ ۔ وصححہ الألبانی ] اور میں نے اپنے استاذ امام عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمۃ اللہ علیہ سے اس حدیث کی شرح کے دوران سنا کہ ’’ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگرچہ نمازِ وتر تمام لوگوں کیلئے مشروع ہے ، تاہم اہل علم کو چاہئیے کہ وہ خاص طور پر ( دوسرے لوگوں سے زیادہ ) اس کااہتمام کریں تاکہ ان کی اقتداء کی جائے ، اور نمازِ وتر کی کم از کم ایک رکعت ہے ،جو کہ عشاء اور فجر کے درمیان پڑھی جا سکتی ہے ، اور اللہ تعالی وتر ہے ، اور وہ وتر کو اور اسی طرح ہر اس چیزکو پسند فرماتا ہے جو اس کی صفات کے موافق ہو، مثلا وہ صبور ہے ، چنانچہ وہ صبر کرنے والوں کو پسندکرتا ہے ، بخلاف عزت وعظمت کے، (کیونکہ عزت وعظمت ساری کی ساری اللہ تعالی کیلئے ہی ہے ) ، لہذا بندوں کو اللہ کی صفات میں سے وہ صفات |